نوجوانوں کیلئے

’’بیٹا آپ۔۔۔۔ کیسے ہو؟ ‘‘ اُنہوں نے گیٹ کھولا اور مُجھے دیکھتے ہوئے بولیں۔
’’جی۔۔۔۔ الحمدُللہ۔۔۔آنٹی۔۔۔ میں جُنید سے ملنے آیا تھا؟‘‘
’’بیٹا، وہ تو جم گیا ہوا ہے بس آتا ہی ہوگا۔ آپ باہر کیوں کھڑے ہو، آؤ اندر۔۔۔۔ بیٹھو۔‘‘
میں نے اپنا عُذر بیان کرتے ہوئے اجازت طلب کی لیکن جُنید کی والدہ کے بے حد اسرار کے سامنے مُجھے ہار ماننا پڑی۔
جگری یاری کے باعث ہمارا اکثر ایک دوسرے کے گھر آنا جانا رہتا ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُس کی والدہ مُجھ اور میرے خاندان سے بخوبی شناسا ہیں۔ حال احوال پوچھنے کے بعد کہنے لگی: ’’بیٹا اچھا ہوا آپ آگئے۔۔۔ میں کچھ دِنوں سے جُنید کی وجہ سے بہت پریشان ہوں۔‘‘
’’کیوں آنٹی خیریت؟ کیا ہوا جُنید کو؟‘‘

’’بیٹا۔۔۔ جُنید دِن بدن بدلتا جا رہا ہے۔ ہم سب اُسکے رویے میں نمایاں تبدیلی محسوس کر رہے ہیں۔۔۔ وہ پہلے جیسا نہیں رہا۔ نماز نہ روزہ، پوری پوری رات اپنے کمپیوٹر کے ساتھ چمٹا رہتا ہے، باقی ہر جانب سے اُسنے توجہ ہٹا لی ہے۔ ایک ہی گھر میں رہنے کے باوجود ہمارے درمیان فاصلے بہت بڑھ چُکے ہیں۔ بیٹا تم ہی اُسے سمجھاؤ میں بہت پریشان ہوں۔‘‘ اُن کے چہرے پر پریشانی کے آثار نمایاں تھے۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ بات تو یہ تھی کہ آنٹی جُنید سے ڈرنے لگی ہیں اور مُجھ سے نہایت پریشانی کے عالم میں کہنے لگی:’’ بیٹا۔۔۔۔ اُسے مت بتانا کہ میں نے آپ سے اُسکے متعلق کوئی بات کی۔ آپ نہیں جانتے کہ اِس بات کا علم جنید کو ہوا تو اُسکا ردِعمل کیا ہوگا۔‘‘ یہ کہہ کر آنٹی اپنے آنچل سے آنکھوں کو ملتے ہوئے کمرے سے باہر چلی گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دفتر میں معمول کے مطابق ہلچل تھی۔ رسیپشن پر بیٹھی لڑکی کان سے رسیور لگائے محوِ گفتگو، عملہ کے نوجوانوں کی حسبِ معمول بھاگ دوڑ، فوٹو سٹیٹ مشین آپریٹر فوٹو کاپیاں کرنے میں مصروف، خاکروب پوچا لگانے میں مگن۔۔۔۔
خاتون سہمے سہمے انداز میں دفتر کی اِس ہلچل کو دیکھ رہی تھی۔ یوں تو خواتین کی آمدورفت وہاں رہا ہی کرتی تھی لیکن اسکے تیز تیز اُٹھتے قدموں، ماتھے پر تیوری، سہمی ہوئی شکل اور چہرے پر گھبراہٹ کے آثار نے مُجھے خاتون پر توجہ مرکوز رکھنے پر مجبور کردیا۔ وہ شرافت کی چادر میں لپٹی، اِک گھریلو خاتون معلوم ہورہی تھی۔ شائید اُسکو کسی کی تلاش تھی یا کسی خاص مدد کی ضرورت۔۔۔۔
کافی کا کپ میرے ہاتھ میں تھا۔ میں نے ایک چُسکی لی، کپ کو میز پر رکھا اور اُٹھ کر محترمہ کے پاس چلا آیا۔ سلام کے بعد مخاطب ہوا: ’’جی فرمائیے میڈم!‘‘ اور سوالیہ نظروں سے محترمہ کی جانب دیکھنے لگا۔
’’ یہ۔۔۔۔۔ انٹرنیٹ کنکشن آپ ہی دیتے ہیں؟‘‘ خاتون نے نہایت مؤدبانہ انداز میں پوچھا۔
میں بات کر رہا ہوں سن 1999 کی اور یہ اِسلام آباد کی پی ٹی سی ایل کے بعد سب سے بڑی انٹرنیٹ سروسز پرووائیڈنگ کمپنی تھی۔ میرا خیال تھا کہ خاتون انٹرنیٹ کنیکشن لینا چاہتی ہیں۔ رسیپشن یا متعلقہ شخص کے پاس بھیجنے کی بجائے، میں نے خود ہی انکو کنکشن دِلوانے کا سوچا لہٰذا محترمہ کو اپنے ساتھ اندرونی دفتر میں لے آیا جہاں میرے علاوہ کمپنی کے چار مزید افراد کی بھی نشستیں تھیں ۔ میں نے خاتون کو بیٹھنے کا اشارہ کیا تاکہ بآسانی بات ہو سکے۔ محترمہ بیٹھتے ہی کہنے لگی: ’’میرے بیٹے کا نام احمر اقبال ہے۔ اُسنے آپسے کنکشن لیا ہے اور ہر ماہ یہاں ہی بل جمع کروانے آتا ہے۔ وہ میرا اکلوتا بیٹا ہے جِس سے مُجھے بے حد اُمیدیں ہیں لیکن اِس انٹرنیٹ کی وجہ سے پوری پوری رات جاگنا اُسکا معمول بن چکا ہے۔ کل رات میں اُسکے کمرے میں داخل ہوئی تو میری نظر اُسکے کمپیوٹر پر پڑ گئی۔‘‘ یہ کہہ کر محترمہ کے آنسو یوں چھلکنے لگے جیسے وہ اپنے آنسوؤں کو بہت دیر سے روکے ہوئے تھیں۔ میں قریب ہی بیٹھے کمپنی کے سیلز مینیجر کی جانب حیران کُن نظروں سے دیکھنے لگا، میرے دیکھتے ہی اُنہوں نے نظریں جھکا لیں. اب میری زبان بھی مکمل طور پر ساکت ہوچکی تھی۔
’’اُسکی کمپیوٹر پر مشغولیات کو دیکھ کر میں دھنگ رہ گئی۔ میری تربیت اتنی تو بُری نہیں تھی۔‘‘ خاتون نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا۔
’’میں اپنے بیٹے کا نیٹ بند کروانے آئی ہوں۔ آپ پلیز ابھی ہی اُسکا انٹرنیٹ کنکشن بند کر دیں۔ جتنا جلد ہو سکے میرے بیٹے کی جان اِس خباثت سے چھُڑا دیجئیے۔۔۔۔ ‘‘ اِس مرتبہ محترمہ آنسو بہانے کے برعکس ہمارے سامنے ہاتھ بھی جوڑنے لگیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایسی سینکڑوں مائیں اپنے جگر گوشوں کیلئے بے چین اور فکرمند ہیں۔ میں نے بے شمار ایسے نوجوانوں کو دیکھا جنکی رات طلوعِ آفتاب کے بعد اور صبح سہ پہر دو یا تین بجے ہوتی ہے۔ اور تو اور فیس بُک اور چیٹنگ جیسی خباثت کی زد میں پوری پوری رات جاگنا لڑکوں کے ساتھ ساتھ اب نوجوان لڑکیوں کا بھی معمول بن چکا ہے۔ اُمتِ مسلمہ کی بیٹیاں جنکی پاک دامنی، شرافت، عزت اور حیا دُنیا کے سامنے ہمیشہ سے مثال رہی ہے، اب وہی محرموں سے چیٹنگ اور لغویات میں پوری پوری رات صرف کر دینے میں کوئی ممانعت نہیں سمجھتیں۔ پڑھائی یا کسی ضروری کام کے باعث راتوں کو جاگ کر محنت کرنے میں کوئی مماثلت نہیں لیکن اِسکو معمول بناتے ہوئے فحاش مشغولیات کو اپنانا نہ صرف قُدرت کے قوانین کی سخت خلاف ورزی ہے بلکہ اپنی زندگی کی بربادی کے ساتھ ساتھ والدین کے راحت کی بھی بربادی ہے۔ نوجوانوں سے گزارش ہے کہ خُدارا اپنا نہیں تو اپنے والدین کا ہی خیال کیجئیے۔ میں نہیں چاہتا آپکی ماؤں کو جُنید یا احمر کی ماؤں کی طرح آپکی وجہ سے آنسو بہانے پڑیں یا کسی کے سامنے ہاتھ جوڑنے پڑیں۔

پرسیپشن (Perception)

عالیہ دِن دیہاڑے گھر سے لاپتہ ہوگئی۔۔۔ دِن بھر کی کوششوں، انتظار اور دُعاؤں کے بعد بھی نہیں ملی تو اماں زلیخا کہتی سُنائی دیتی ہیں: ’’عالیہ کی ماں نے اُسکا رشتہ طے کر دیا تھا جبکہ عالیہ کا ایک لڑکے سے کوئی چکر وکر چل رہا تھا، میں تو کہتی ہوں وہ اُسی بدمعاش کے ساتھ بھاگ گئی ہے۔‘‘

 سیٹھ عنایت اللہ اپنی اہلیہ سے کہتے ہیں: ’’ یہ ضرور اغواہ برائے تائیوان ہے۔ تم دیکھ لینا جلد ہی کوئی فون کر کے تائیوان مانگے گا‘‘

عالیہ کی ایک سہیلی کا کہنا ہے: ’’ مُجھے یقین ہے کہ عالیہ کو اُس بلے لفنگے نے اغواہ کروایا ہے‘‘

بشیر کا کہنا تھا: ’’ عالیہ کا خاندان اِس شہر میں نیا ہے، یقیناً عالیہ کہیں راستہ کھو گئی ہوگی۔ انشاءاللہ مل جائے گی‘‘

ہمدانی صاحب کہتے ہیں: ’’مُجھے خدشہ ہے کہ کسی نے اغواہ کر کے قتل نہ کر دیا ہو‘‘
-----------------------------------------

آئیے اب آپکو بتاؤں کے اماں زلیخا، سیٹھ عنایت اللہ، عالیہ کی سہیلی، بشیر اور ہمدانی صاحب نے ایسا کیوں سوچا!!

دراصل اماں زلیخا عالیہ کو روزانہ شام دفتر سے واپسی پر ایک لڑکے کی گاڑی میں آتا ہوتا دیکھتی تھیں۔ لہٰذا اماں کو یقین تھا کہ ہو نہ ہو بات یہی ہے۔
سیٹھ عنایت اللہ کا بیٹا بھی چند سال قبل اغواہ ہوا تھا اور اغواہ کاروں نے دوسرے دِن فون کر کے تائیوان مانگا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ سیٹھ صاحب کو یقین تھا کہ یہ ضرور اغواہ برائے تائیوان کی وارداد ہے۔
عالیہ اور اُسکی سہیلی روزانہ یونیورسٹی اکٹھی جایا کرتی تھیں، ایک دِن راستے میں بلے لفنگے نے عالیہ کو چھیڑا جس پر عالیہ نے اُس کے منہ پر ایک تھپڑ رسید کر دیا۔ عالیہ کی سہیلی کو اِسی وجہ سے پختہ یقین تھا کہ یہ بلے لفنگے نے ہی بدلہ لیا ہے۔
بشیر جب اِس شہر میں نیا آیا تھا تب اُسکی چھوٹی بہن ایک روز راستہ بھول گئی تھی۔ موبائل کی چارجنگ نہ ہونے کی وجہ سے بشیر کی بہن کسی سے رابطہ نہ کر پائی اور کسی نے اُسکی غلط رہنمائی کر دی جس سے وہ مزید گھر سے دور ہوگئی۔ یوں بشیر کی بہن کو گھر پہنچتے ہوئے نہایت دیر ہوگئی۔ لہٰذا وہ پراُمید تھا کہ انشاءاللہ عالیہ بھی جلد گھر پہنچ جائے گی۔
ہمدانی صاحب کے خالہ زاد بھائی کی کسی کے ساتھ دُشمنی تھی اور دُشمنوں نے اُسکے بیٹے کو اغواہ کر کے قتل کر کے نعش ایک نالے میں پھینک دی۔ یوں اُنہوں نے اپنا انتقام لیا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمدانی صاحب کا خیال تھا کہ عالیہ کے والد کے کاروباری دُشمنوں نے اُنکی بیٹی کو اغواہ کر کے قتل کرکے ضرور اپنا کوئی بدلہ لیا ہوگا۔

دراصل اماں زلیخا، سیٹھ عنایت اللہ، عالیہ کی سہیلی، بشیر اور ہمدانی صاحب نے اپنے گردونواح کے حالات کے مطابق وہی کچھ سوچا جو اُنکی زندگیوں میں ہورہا ہے یا ہوا جبکہ کسی نے بھی عالیہ، اُسکی زندگی، اُسکے کے گھر، اور حالات کے مطابق سوچنے کی بالکل کوشش نہ کی۔ مختلف افراد نے یہ جو مختلف اندازے لگائے اِنکو انگریزی میں ’’پرسیپشن (Perception)‘‘ کہا جاتا ہے۔

اِن پرسیپشنز (Perceptions) کی وجہ سے بہت سی غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں جو ہماری زندگیوں اور مختلف رشتوں میں بیشتر تلخیوں، ناچاقوں اور دوریوں کا سبب بنتی ہیں۔ ہر فرد دوسرے شخص کیلئے اپنی سوچ اور اپنے گردونواح کے ماحول کے مطابق سوچتا ہے۔ وہ یہ کبھی سوچنے کی کوشش نہیں کرتا کہ دوسرا شخص کِس چوراہے پر کھڑا ہے، وہ جو بات یا فعل کر رہا ہے، کس نظریہ کے پیشِ نظر کر رہا ہے، اُسکی سوچ اور نظریات کیا ہیں، وہ کس ماحول میں رہ رہا ہے، وہ کیا چاہتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اگر ہم اِس انداز سے سوچنے لگیں تو شائید بہت سی تلخیاں، ناچاقیاں اور دوریاں ختم ہو جائیں۔ یاد رکھئیے آپکی ایک غلط فہمی اور ایک غلط سوچ کسی دوسرے کی زندگی برباد بھی کر سکتی ہے۔ 

آپکو دعوتِ فکر دیتا ہوں کہ آپ سے جو رشتے دور ہیں یا جن رشتوں میں ناچاقیاں ہیں، سوچئیے کہاں کوئی غلط فہمی ہے اور کہاں آپنے کسے دوسرے کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ آئیے۔ ۔ ۔ بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے روٹھے رشتوں اور پیاروں کی جانب پیار، محبت، اور دوستی کا ہاتھ بڑھائیے۔ بھیا کی نیک تمنّائیں آپ سب کے ساتھ ہیں۔

انسان بن جاؤ!


اِنسانوں کے اِس بازار میں، خالص اِنسان نہایت قلیل ہیں۔ مانتا ہوں یہ انسان نما ضرور مگر انسان نہیں درحقیقت فقط بیوپاری ہیں۔ یہ اُستاد، طالبِعلم، وکیل، ڈاکٹر، انجینئر، ملازمین، مزدور، مذہبی و سیاسی رہنما غرض تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والا ہر اِک فرد اصل میں بیوپاری ہے جس میں میں اور تم بھی شامل ہیں۔ ہاں۔۔۔ تم مانو یا نہ مانو۔۔۔ میں اور تُم بھی بزنس مین ہیں۔ ہماری زندگیوں کا مقصد صرف پیسہ کمانا ہے یہی وجہ ہے کہ میں جب سے انٹرنیٹ پر بلاگنگ کر رہا ہوں، بے شمار افراد نے مجھ سے ایک ہی سوال کیا کہ کیا اِس بلاگنگ سے کوئی آمدنی بھی ہوتی ہے؟ میرا جواب ہمیشہ نفی میں رہا۔ جس پر دوسرا سوال جو میرے منہ پر مارا جاتا وہ یہ کہ پھر آپ کیوں یہاں اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں؟ آپکو اِس سے کیا ملتا ہے؟ ہاں۔۔۔ ہماری زندگیوں کا مقصد تو صرف پیسہ کمانا ہے۔ ہم کیا جانیں یہ دِلی سکون، دِلی خوشی، محبت، ہمدردی، جذبہ، ایمان اور شوق کیا ہوتا ہے۔

ایک بچے کی ہی مثال لے لیجئیے جو ابھی مکمل بولنے کے قابل بھی نہیں ہوپاتا لیکن اُسکے دِماغ میں یہ بات ٹھونس دی جاتی ہے کہ تم نے ڈاکٹر بننا ہے، یہی تمہارا مقصدِ حیات ہے، اِسی میں تمہاری فلاح ہے۔ تم نے پڑھائی اور محنت کی صورت میں خوب سرمایہ کاری کرنی ہے تبھی اچھے ڈاکٹر بنو گے۔ اور جتنا گُڑھ ڈالو اتنا میٹھا کے مصداق جتنی سرمایہ کاری کرو گے اُتنا ہی نفع۔۔۔ گویا بچے کو بچپن سے ہی بیوپار کے اُصول سکھا دئیے جاتے ہیں۔ یہی بچہ بڑا ہوکر ڈاکٹر بنتا ہے، اپنا ہسپتال نما کارخانہ بنا لیتا ہے۔ اب اِس کارخانہ میں صرف وہی علاج پائے گا جو فیس بھرے گا۔ ہاں۔۔۔ کوئی مرتا ہے تو مرے۔۔۔ علاج تبھی ہوگا جب معاوضہ ملے گا۔ یہی بچہ اگر اُستاد بن جاتا ہے تو سکول نما کارخانہ، جہاں کسی غریب کا بچہ قطعاً تعلیم نہیں پاسکتا۔۔۔ فیس بھرو فیس۔۔۔ یہی بچہ عالم ہے تو علم کا تاجر، قاضی ہے تو انصاف کا تاجر، حاکم ہے تو رعایا اور اُنکے کے حقوق کا تاجر، سپاہی ہے تو ریاست کے امن کا تاجر، فوجی افسر ہے تو سرحدوں کا تاجر اور تاجر بھی ایسا کہ جسکے بنیادی ہتھیار رشوت، سفارش، جھوٹ، فراڈ اور بددیانتی ہیں۔ تبھی میں کہہ رہا ہوں کہ ہم انسان نما ضرور مگر انسان نہیں، درحقیقت فقط بیوپاری ہیں۔

انسان تو وہ ہیں جنہیں انسانیت کے تقاضوں کی نہ صرف پہچان ہے بلکہ وہ باخوبی اِن تقاضوں کو پورا کر رہے ہیں۔ انسان اتنا خود غرض، لالچی، بےغیرت اور بےحس نہیں ہوتا جتنے آج ہم ہوچکے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج مسلمان مشرق سے لے کر مغرب تک ہر جانب ظلم کی چکی میں پِس رہے ہیں۔ میرے کتنے ہی بےگناہ مسلمان بہن بھائی کفار کی قید میں اُنکے مظالم سہ رہے ہیں۔ اور قید بھی گوانتا ناموبے جیسی جہاں وہ وہ ظُلم ڈھائے جاتے ہیں کہ جسکا تصور ہی لرزا دینے کیلئے کافی ہے۔ ہاں وہ میری ہی قوم کے باشندے ہیں جنہیں برہنہ کر کے برف خانوں میں لٹا دیا جاتا ہے، کتوں کے سامنے پھینک دیا جاتا ہے، پانی کی بجائے خون اور نہ جانے کیا کچھ پلایا جاتا ہے، میری ماؤں اور بہنوں کی عزتیں سینکڑوں مرتبہ لوٹی جاتی ہیں، وہ روز روز کے مرنے سے تنگ آکر اِک ہی مرتبہ مرنا چاہتے ہیں۔ اُنہیں شکوہ ہے ہم سے کہ اُنکے مسلمان بہن بھائی بےخبر سو رہے ہیں۔ مگر اُنہیں کیا بتلاؤں کہ ہم تو انسان ہی نہیں رہے۔ پھر ہمارے پاس اتنا وقت کہاں کہ کسی کیلئے سوچیں۔ وہ مسلمان جو اللہ کی مدد کی اُمید کا ہتھیار لے کر تمہاری مدد کیلئے اپنے گھروں کو چھوڑ ڈالتے ہیں، ہم تو اُنہیں دہشت گرد اور بیوقوف تصور کرتے ہیں کہ اُنہیں اِس سے کچھ حاصل نہیں۔ ہمارا مذہب، ہمارا ایمان، ہمارا خدا اور ہمارا سب کچھ تو صرف پیسہ ہے پیسہ۔۔۔ ہم تو راتوں کو سونے کی بجائے یہ سوچتے ہوئے گزار دیتے ہیں کہ کیسے اپنا محل بنا لیا جائے، کیسے لمبی گاڑی آجائے، کیسے بڑا عہدہ مل جائے، کیسے فرعون جیسی شان مل جائے، ہم تو زمین کے ایک ٹکڑے کی خاطر اپنی ماں کو گالیاں دے جاتے ہیں، باپ کو جیتا جی مار دیتے ہیں۔۔۔ ہاں۔۔۔ کیا کیا بتلاؤں تمہیں۔۔۔ کہنے کو تو بہت کچھ ہے۔۔۔ مگر تم صرف یہ مان لو کہ ہم انسان نما ضرور مگر انسان نہیں، درحقیقت فقط بیوپاری ہیں۔

آؤ ۔۔۔ چند لمحوں کیلئے ۔۔۔ ذرا دماغ پر زور دو ۔۔۔ اِس بازار کے شوروغل سے ذرا پرے ہٹ کے، اپنے دماغ سے اپنی کاروباری زندگی کے نفع و نقصان، لالچ و خود غرضی کے پردوں کو ہٹاؤ، ذرا ضمیر کی اَکھیوں کو کھولو اور سوچو کہ تم اِس دُنیا میں کیوں آئے؟ کیا تمہارے یہاں آنے کا کوئی مقصد تھا؟ کب تک رہنا ہے یہاں؟ آخر تمہاری اِس زندگی کا انجام کیا ہے؟ یہاں سے جاتے ہوئے ساتھ کیا لے کر جاؤ گے؟ کبھی سوچا کیا یہ تم نے؟ اگر نہیں سوچا تو بخدا آج سوچ لو۔۔۔ مان لو۔۔۔ مان لو۔۔۔ مان لو۔۔۔ تمہاری زندگیوں کا وہ مقصد نہیں ہے جو تم بنا بیٹھے ہو۔ ابھی بھی وقت ہے۔ اِس بیوپار کو چھوڑو اور انسان بن جاؤ۔ ہاں ۔ ۔ ۔ انسان بن جاؤ!

بھیا کی شاعری

اِک زمانہ میں ماحول اور وقت نے ہمیں بھی شاعری کرنے پر مجبور کیا لہٰذا ہم قلم اور کاغذ ہاتھ میں تھامے بیٹھ گئے اور شام تک اپنے مقصد میں کُچھ حد تک کامیاب ہو ہی گئے۔ چند اشعار تو لکھ لئے مگر مسئلہ یہ پیدا ہوا کہ ہمارے علاوہ یہ اشعار پورے گھرانے میں کسی کے بھی پلے نہ پڑے۔۔۔۔ گھرانے میں کیا، آج تک یہ اشعار جس کو بھی سُنائے، بیشتر کے سر کے اوپر سے ہی گزر گئے۔ اپنی کوشش کو جاری رکھتے ہوئے ہم نے چند اِک مرتبہ دوبارہ بھی قلم اُٹھایا اور ہر مرتبہ اپنی ڈائری میں لکھ کر ڈائری سنبھالے دیتے۔ بالآخر اُردو کے ایک پروفیسرکو ڈائری دِکھائی تو جناب نے ہماری آنکھیں کھولنے میں ہماری معاونت فرمائی کہ جو کُچھ ہم آج تک لکھتے رہے اگر اُنکو اشعار کہا بھی جائے تو معذور میرا مطلب ہے کہ بغیر ہاتھ اور  پاؤں کے اشعار کہا جائے گا۔ خیر وہ دِن اور آج کا دِن دوبارہ کبھی لکھنے کی زحمت ہی نہ کی۔ نہ ہی کبھی اپنے اِن شاہکاروں کا ذکر کسی سے کیا۔ آج کافی عرصے بعد ڈائری کھولی تو سوچا کیوں نہ چند اشعار کا تذکرہ اپنے بلاگ پر دوستوں اور قارئین سے کیا جائے۔ لہٰذا کُچھ اشعار پیشِ خدمت ہیں۔
فکر مت کیجئیے! ہم اشعار کے نیچے مُشکل الفاظ کے معانی بھی لکھے دئیے دیتے ہیں تاکہ آپ حضرات پڑھنے کے بعد بھیا کی (طنز پر مبنی) عزت افزائی نہ کردیں۔

نوٹ: یہ اشعار نما سطور بھیا نے فقط سولہ سے سترہ سال کی عمر میں لکھی تھیں۔ لہٰذا اگر پسند نہ آئیں  (جِس کے ننّاوے فیصد امکانات ہیں)یا اُردو ادب کی توہین محسوس ہو تو برائے مہربانی معاف فرمائیے گا۔

نہیں  ہیں  بھولتے   بسم اللہ   آلویز  ہم
کرتے  ہیں  جب کبھی  کُچھ   رائٹ  ہم

اُٹھایا  نہ  تھا  پہلے کبھی بھی   ہم  نے  قلم
یاس  نہ ہوئے تھے  عالمِ ناپائیدار  سے  ہم

چاروں جانب نظر آتے تھے جو  سروِچرواغاں
پھیلائے رکھتے تھے تابندگی زندگی میں جاوداں

یہ مصنوعی  تابندگی  سروچراغاں   کی نہ تھی
چراغ رہ گزر تھا ہوگیا نظرہوائے تندِجولاں

نہیں کرتے کوئی شکوہ  ان آندھیوں سے  ہم
جگا کر مُجھ کو انہوں نے بہت کیا ہے   احساں

ثابت  ہوتا  ہے  وہی  مارِآستین  جاوداں
کرتے  ہیں  جن سے  ہم   پیار  بے کراں

مسّیں بھیگنے سے قبل بچا لیا دُنیا کے فریب سے
یہ میرے رب کا ہے  مُچھ دِل گرفتہ پر  احساں

کہاں  گئی  وہ مہرو ولا بھری دُنیا  اے اللہ!
کہاں ہے پنہاں  خوشی بھرا فدینا  اے اللہ!

معانی:      
یاس                          :   نا اُمید
عالمِ ناپائیدار                 : فانی دُنیا
سروِچراغ                  : مصنوعی سرو کا درخت جِسکو مُختلف روشنیوں سے سجایا گیا ہو
تابندگی                      : چمک، روشنی (مراد رونق اور خوشیاں)
جاوداں                      : ہمیشہ      
چراغِ رہ گزر                 : ایسا چراغ جو ہلکی سی ہوا سے بُجھ جائے
ہوائے تندِ جولاں         : تیز ہوا (مراد زندگی کی تلخیاں ہیں)
آندھیوں                   : مراد زندگی کی تلخیاں
مارِ آستیں                    : وہ شخص جو دوست بن کر دُشمنی کرے
بے کراں                   : بے حد، بہت ذیادہ
مسّیں بھیگنا                 : داڑھی مونچھ نکلنا، جوان ہونا
دِل گرفتہ                    : شکستہ دِل، غمگین، اُداس
مہروولا بھری دُنیا          : محبت اور پیار سے بھری دُنیا
پنہاں                         : چھُپا ہوا، خفیہ
فدینا                         : خزانہ           
مزید پڑھا کر ہم اپنی مزید عزت افزائی نہیں کروانا چاہتے لہٰذا اِسی پر ڈکار مارئیے....

کمپیوٹر اور احتیاط

جہاں کمپیوٹر موجودہ دور کی اِک اہم ضرورت اور نوجوانوں کیلئے تفریح کا سبب بن چُکا ہے وہیں اِسکے بہت سے نقصانات بھی ہیں جن سے ہم سب بخوبی واقف ہیں۔ اِنہیں نقصانات میں سے ایک کمپیوٹر کے ذیادہ استعمال کا صحت پر منفی اثر ہے۔ نظر کا کمزور ہونا اور کمر کا درد سرِعام ہیں اور یہ دونوں بیماریاں بھی ایسی کہ جن سے جان چھُڑانا نہایت مشکل ہے۔ مُجھے بھی کُچھ عرصہ یہ کمر کا درد رہا تھا لیکن الحمدُللہ جلد ہی جان چھُٹ گئی لیکن اِک دوست اِس درد میں مبتلا ہے جس کو دیکھتے ہوئے اِس موضوع پر آج لکھنا چاہا۔ اب معاملہ یہ کہ خوب آرام کرو تو درد ختم لیکن تھوڑا سی مشقت یا کوئی کام کر لیا جائے یا کچھ دیر بغیر سہارے کے بیٹھ لیا جائے تو یہ درد آپکا جینا حرام کئے دیتا ہے۔ اِس سلسلے میں نہایت معمولی سی احتیاطی تدابیر کو اپنانے سے ہم اِن سے بچ سکتے ہیں۔ 
مُجھے کالج کے زمانہ میں آرام دہ کُرسی نہ ہونے کی وجہ سے کمر کا درد شروع ہوگیا تھا جو کالج چھوڑنے کے بعد بھی کچھ عرصہ جاری رہا۔ اکثر تھوڑی سی مشقت والا کام کرنے سے یہ درد نہایت ذیادہ ہونے لگتا تھا۔ خیر بالآخر بھرپور آرام اور احتیاط سے مُجھے اس درد سے چھُٹکارا مل گیا۔ لہٰذا اگر آپکے ساتھ بھی کوئی ایسا مسئلہ ہو تو بھرپور آرام اور احتیاط کیجئیے۔

زیادہ دیر لگاتار مت بیٹھئے۔ اگر آپکا کام زیادہ ہو تو کچھ دیر کے بعد وقفہ کر لیا جائے۔ یوں وقفوں میں بیٹھنے سے ذیادہ تھکاوٹ نہیں ہوگی۔
کمزور افراد خصوصاً بچے زیادہ دیر لگاتار کمپیوٹر کا استعمال مت کریں۔
سکرین کی روشنی (Brightness) کو کم سے کم رکھا جائے۔
اندھیرے میں ہر گز کمپیوٹر کا استعمال مت کریں بلکہ ہمیشہ کمرے کی لائٹ آن رکھیں۔ نوجوان رات کے اوقات میں اندھیرے میں لیپ ٹاپ کو آن کر کے پوری پوری رات نیٹ گردی کرتے رہتے ہیں جو کہ صحت کیلئے سخت نقصان دہ ہے۔
کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ کی سکرین ہمیشہ آپکی آنکھوں کے بالکل سامنے ہونی چاہئیے، نہ اوپر اور نہ ہی نیچے۔
ذیادہ ٹائپنگ کرنی ہو تو کی بورڈ (keyboard) بھی بالکل کہنیوں کی سامنے ہونا چاہئیے۔ نہ اوپر اور نہ نیچے۔
اپنے آرام کا خاص خیال رکھیں۔ آرام دہ کُرسی پر بیٹھیں۔ کسی بھی ایسی حالت میں مت بیٹھیں جہاں آپ اپنے آپ کو پُرسکون محسوس نہ کریں۔

ووڈافون کی جانب سے بنائی گئی ایک متعلقہ اور دلچسپ ویڈیو آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔ ضرور دیکھئیے:

آزادی

’’چودہ اگست 1947 کو کیا ہوا؟‘‘
’’اِس دِن پاکستان آزاد ہوا تھا‘‘۔ 
 میرے اِس سوال کا  یقیناً یہی وہ جواب ہے جو آپ سب کے دماغوں میں ہوگا۔
’’لیکن پاکستان کے آزاد ہونے کا کیا مطلب؟‘‘
آپ حیران ہورہے ہوں گے کہ یہ آج بھیا کیسے سوالات کر رہا ہے۔
’’برصغیر کے مسلمانوں کو اِک علیحدہ سرزمین ملی جہاں وہ سر اُٹھا کر اِک آزاد زندگی گزار سکتے ہیں۔‘‘
مُجھے پورا یقین ہے کہ آپ کے پاس میرے دوسرے سوال کا جواب یہی ہوگا۔
’’تو کیا ہم آزاد زندگی گزار رہے ہیں؟؟؟‘‘
یہ وہ سوال ہے جسکا جواب میں صرف اور صرف آپ سے سُننا چاہتا ہوں۔۔۔
**************************************************
لقمان میرا  ایک پرانا دوست ہے۔ ہم جب بھی ملتیں ہیں تو پُرانی یادوں کو یاد کر کے خوب لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اک کثیر عرصہ بعد کل ہماری پھر ملاقات ہوئی، خوب باتیں ہوئیں۔ باتیں کرتے کرتے لقمان کہنے لگا کہ میں اُن لوگوں کے سخت خلاف تھا جو اپنے دیس اور اپنی سرزمین کے ساتھ بےوفائی کرتے ہوئے پاکستان سے باہر چلے جاتے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ اب اِسکے خلاف نہیں ہو کیا؟ کہنے لگا کہ نہیں ۔۔۔ قطعاً نہیں۔۔۔ آجکل کے زمانے میں وہ لوگ واقعی عقلمند ہیں۔۔۔ اُسنے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ میرا خیال تھا جو بھی ہو پردیس تو پردیس ہوتا ہے، وہاں انسان آزادی سے نہیں جی سکتا، ہزاروں مسائل ہوتے ہیں پردیس میں۔ لیکن یہاں آزادی ہے، آپ کھُل کر جی سکتے ہیں۔۔۔۔۔ لقمان نے اِک لمبا سانس لیا اور کہنے لگا کہ  اب  سب اِسکے برعکس ہے۔ انسان پردیس میں جا کر جو زندگی گزارتا ہے وہ یہاں سے کوسوں بہتر ہے۔ میں لقمان کی بات سُن کر مُسکرا دیا۔ اُس نے میرے مُسکرانے کی وجہ پوچھی تو میں نے بتایا کہ میرے ساتھ بھی بالکل ایسا ہی ہے اور سو فیصد وہی رائے ہے جو تمہاری۔
**************************************************
میرے گزشتہ دفتر کا بینک اکاونٹ جس بینک کی شاخ میں تھا وہ شاخ راولپنڈی میں جبکہ دفتر اسلام آباد میں تھا لہٰذا دفتر کیلئے بینک سے کوئی بڑی رقم نکلوا کر دفتر لاتے ہوئے پورے سفر اِک عجیب سا خوف طاری رہتا اور یہ خوف اپنی انتہا کو پہنچ جاتا جب میرا گزر اسلام آباد پولیس کی ایک چیک پوسٹ سے ہوتا۔ کیا کوئی مُجھے بتا سکتا ہے کہ یہ کیسا خوف تھا؟ جب آپ کوئی غلط کام نہیں کر رہے تو یہ خوف کیسا؟ کیا یہ پولیس آپکی ہی محافظ نہیں؟

اگر آپ مذہبی شخصیت کےمالک ہیں تو بچ کر رہئیے گا۔ آپ ایک دہشتگرد ہیں۔ بھرے مجمع میں خصوصاً آپکی تلاشی لی جائے گی۔ بیشتر ادارے ایسے ہوگئے جہاں آپکو نماز تک پڑھنے کی آزادی نہیں ۔ یہی حال ہر ایسی عورت کے ساتھ ہے جو پردہ کرتی ہے۔ خصوصاً شرعی پردہ کرنے والی خواتین کو یہاں ہر موڑ پر نہایت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اور اب تو پبلک پوائینٹس سے لے کر تعلیمی اداروں تک خواتین کے زبردستی نقاب اُتروائے جاتے ہیں۔ دِن بدن اِس دیس میں عورت کی عزت و تعظیم میں کمی آتی جا رہی ہے۔ 
  
آپ مُلک کے جس کونے میں بھی ہوں، آپکو  یا آپکے بچوں کو کوئی بھی بغیر کسی وجہ کے اُٹھا کر لے جا سکتا ہے، یاد رکھئیے! واپسی کے کوئی امکانات نہیں۔ اِن میں پولیس، فوج اور خفیہ ایجنسیاں سرعام ہیں۔ لہٰذا آپکو احتیاط کرنی ہے۔ گھر میں چھُپ کر رہئیے، صرف اپنے کام سے باہر نکلئیے۔   
  
اگر آپ کوئی عہدہ یا مقام چاہتے ہیں تو سفارش اور رشوت کا بندوبست کیجئیے ورنہ اونچے خیالات دماغ سے نکال لیجئیے اور کھپتے رہئیے۔
  
آپ غریب ہیں تو اِس آزاد سرزمین میں آپکی اچھوت سے بڑھ کر کوئی قدر نہیں۔
 
اگر آپ جائز طریقوں سے حلال کمانے کے خواہشمند ہیں اور حرام، جھوٹ، فراڈ، رشوت اور ہر غلط کام سے بچنا چاہتے ہیں تو۔۔۔۔جائیے ڈوب مرئیے۔ 
 
اِن تمام باتوں کے باوجود اگر آپ اِس سر زمین کی خاطر کُچھ کرنا چاہتے ہیں تو موسٹ ویلکم لیکن یہ مت بھولئے گا کہ آپکا انجام کچھ ڈاکٹر عبدلقدیر خان جیسا ہوگا۔۔
  
اوپر  ذکر کئے ہوئے تمام افراد اِس آزاد ریاست کے میرٹ پر پورا نہیں اُترتے لہٰذا آپ یہاں رہنے کے اہل نہیں۔
**************************************************
 اِس آزاد دیس کے آزاد باشندوں کویومِ آزادی  مبارک ہو

جنید جمشید اور دِل دِل پاکستان

جیسا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ مشہور پاکستانی نعت خواں جنید جمشید اب اشاعتِ دین کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں لہٰذا کاروبار کے ساتھ ساتھ، تبلیغ کے سلسلے میں بھی وہ اکثر پاکستان سے باہر جاتے رہتے ہیں۔ اور ایسے موقعات پر جن اسٹیجوں پر اِن سے گانے کی فرمائیشیں کی جاتی تھیں، اب اُن ہی اسٹیجوں پر نعت خوانی کیلئے فرمائیشیں کی جانے لگی ہیں۔چونکہ یورپ میں بھی پاکستانیوں کی اِک کثیر تعداد موجود ہے لہٰذا وہ لوگ بھی جُنید جمشید سے مِل کر اور انکی زبان سے نعتیں سُن کر اُتنا ہی اچھا محسوس کرتے ہیں جتنا کہ پاکستان میں رہنے والے۔ اگر آپ جُنید جمشید سے کبھی ملے ہوں تو آپکو اِس بات کا بخوبی اندازہ ہوگا کہ وہ ایک نہایت خوش اخلاق انسان ہیں۔ دورانِ گفتگو ہلکی پُھلکی ہنسی مذاق کرنا اُنکی پُرانی عادت ہے۔ حال ہی میں ایسے ہی خوشگوار موڈ میں اُنہوں نے ٹورنٹو میں پاکستانیوں کے ایک اجتماع میں شرکت کی۔ مُجھے کوئی خاص اطلاعات تو موصول نہیں ہوئیں لیکن اِس بات کا یقین ہے کہ اُنہوں نے ٹورنٹو کے اِس سٹیج پر بھی ضرور چند نعتیں پڑھیں ہوں گی جو حاضرین کے ایمان میں اضافے کا باعث بنی ہوں گی۔
وطن سے اتنے دور اپنے ہم وطنوں کی اِک کثیر تعداد کو دیکھ کر انسان کے دِل میں تو وطن کی محبت جاگتی ہی ہے یہی وجہ ہے کہ اسٹیج سے نیچے اُترنے سے قبل جُنید جمشید نے ٹورنٹو میں پندرہ سال کے کثیر عرصہ بعد اپنے ہی مشہور ملی نغمے دِل دِل پاکستان کا ایک مختصر حصہ گُنگنایا جس سے حاضرین نہ صرف حیران اور خوش ہوئے بلکہ اُنکے دِلوں میں بھی وطن کی محبت جاگ اُٹھی۔ اِس موقع کی ایک چھوٹی سی ویڈیو جو آجکل انٹرنیٹ پر گردش کر رہی ہے آپکے سامنے پیش کر رہا ہوں:


چونکہ  کُچھ افراد اُنکے اِس فیل کو منفی لے رہے ہیں اور یہ خیال ظاہر کر رہے ہیں کہ جُنید جمشید نے ایک مرتبہ پھر گانوں کا آغاز کر دیا ہے لہٰذا یہ بات واضح کرتا چلوں کہ اُنہوں نے کوئی غیر شرعی قدم نہیں اُٹھایا۔ بلا شبہ موسیقی اِسلام میں حرام قرار دی گئی ہے جِس سے تمام مسلمانوں کو بچنے کی تلقین کی گئی۔ لیکن اللہ کی شان میں اشعار جو کہ حمد کہلاتی ہے  اور رسول اللہ ﷺ کی شانِ اقدس میں  اشعار  جو کہ نعت کہلاتی ہے کو پڑھنا نہ صرف جائر بلکہ ثواب کا ذریعہ بھی ہے کیونکہ اِس سے مومن کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے۔ اِسکے ساتھ ساتھ اپنی سرزمین کی محبت میں اشعارکہنا جو کہ ملی نغمہ کہلاتا  ہے نہ صرف جائز ہے بلکہ یہ آپکی اپنے وطن سے محبت میں اضافے کا باعث  بھی بنتاہے۔ اِنکی مثال وہ اشعار ہیں جو صحابہ اور عرب کے مسلمان عموماً عرب کی شان میں کہا کرتے تھے۔ اِسکے برعکس اگر حمد، نعت یا ملی نغمہ کے ساتھ موسیقی اور ناچ گانے کا اہتمام بھی کیا جانے لگے تو بِلا شبہ یہ حرام ہے۔
 چند اطلاعات کے مطابق حقیقت فقط یہ  ہے کہ جناب جُنید جمشید نے میڈیا سے اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے  اپنا مشہور ترین ملی نغمہ ’’دِل دِل پاکستان ‘‘ مختلف کنسرٹس میں گُنگُنانا شروع کر دیا ہے۔ یاد رہے وہ یہ نغمہ ہمیشہ موسیقی کے بغیر اور مذہب کی حدود میں  رہتے ہوئے گُنگناتے ہیں۔ میرے خیال سے اُنہوں نے یہ ایک نہایت اچھا قدم اُٹھایا ہےاور اُمید  ہے کہ عُلماء کی مشاورت سے اُٹھایا ہوگا۔ کیونکہ ایک مومن کا کام نہ صرف کسی بُرے ماحول سے نکل جانا ہے بلکہ اُس ماحول  کو ایک پاکیزہ ماحول میں بدلنا بھی اُسی کی  ذمہ داری ہے۔  اُنکے اِس عمل کے پیچھے بھی  سب سے بڑی حکمتِ عملی یہی ہے کہ وہ اِس میدان میں رہتے ہوئے  بآسانی مذہب کی تعلیمات باقی تمام افراد تک بھی پہنچا سکتے ہیں اور اُمید ہے کہ اللہ ایک کی مدد سے مزید کو بھی توبہ اور ہدایت کی توفیق عطا فرمائے گا۔

اِک ہمسفر جُدا ہوا

زندگی کے اس سفر میں آئے دن کوئی نیا چہرہ ملتا ہے، بہت سے لوگ آپکی زندگی میں آتے ہیں اور بہت سے لوگ آپکی زندگی سے ہمیشہ کیلئے چلے جاتے ہیں مگر آپ کسی کی خاطر یا کوئی آپکی خاطر رُکتا نہیں، ہر کوئی اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے۔ کہیں کسی ہمسفر کا ملنا آپ کیلئے باعثِ مسرت ہے تو کہیں کسی کا جانا۔۔۔ اسکے برعکس عموماً کسی ہمسفر کے ملنے سے آپ پریشان ہوجاتے ہیں اور اکثر کسی کے جانے سے آپکو اپنی زندگی اُجڑتی ہوئی دِکھائی دینے لگتی ہے۔۔۔ لیکن یہ سفر یوںہی جاری و ساری رہتا ہے۔ انسان اپنی منزل کی جانب لگاتار چلتا جارہا ہے، راہ میں ملنے والے چہروں کی جانب کبھی مُسکرا کر دیکھ لیتا ہے تو کبھی کسی کو دیکھ کر ماتھے پر تیوری چڑھا لیتا ہے لیکن لمحہ بھر کیلئے بھی رُکتا نہیں۔۔۔ کہیں انسان کا گزر کسی ایسے وقت سے ہوتا ہے جہاں رشتہ دار، دوست احباب اور باقی لوگوں کا اِک ہجوم ہے۔ اس ہجوم میں کچھ افراد اس انسان کی جانب ہاتھ بڑھاتے ہیں لیکن یہ اُنسے منہ پھیرتے ہوئے اپنی راہ چلتا رہتا ہے اور کہیں یہ کسی سے ملنے کو بے چین ہوا جاتا ہے لیکن وہ اس سے منہ پھیر لیتے ہے۔۔۔
یوں ہی چلتے چلتے اکثر انساں کا گزر کسی صحرا نما وقت سے ہوتا ہے جہاں دور دور تک کوئی ہمسفر دِکھائی نہیں دیتا، عموماً چلتے چلتے، صحرا کے اُتار چڑھاو کا سامنا کرتے کرتے وہ تھک جاتا ہے لیکن کوئی سہارا دینے کو نہیں ملتا۔ ایسے وقت میں جب تکالیف و مصائب حد سے بڑھنے لگیں تو وہ اپنے آنسوؤں سے صحرا کی ریت کو نم کرتا چلا جاتا ہے لیکن کوئی آنسو پونجھنے کو نہیں ہوتا۔ بالآخر انساں اپنی منزل کو پہنچ جاتا ہے۔۔۔
خیر میں اپنی اصل بات کی جانب بڑھتا ہوں۔ دراصل زندگی کے اس سفر میں تو آئے دن بہت سے لوگ ملتے ہیں لیکن کچھ لوگ اپنی عمدہ یادیں چھوڑ جاتے ہیں۔ اُنکے ساتھ گزرے چند لمحات ایسے ہی یاد آتے ہیں گویا ابھی چند لمحوں پہلے کی بات ہو۔ ایسی ہی چند یادیں قادری صاحب کے ساتھ گزرے ہوئے وقت کی ہیں۔ قادری صاحب نہایت خوش اخلاق، نیک انسان اور اِک ادبی شخص تھے۔ وہ اُردو زبان کا بےحد ذوق رکھتے تھے۔ اُنہوں نے اُردو کے حوالہ سے اپنی بہت سی خدمات ٹیلیویژن پر بھی سرانجام دیں۔ اُنکے بولنے کا انداز ایسا پرکشش تھا کہ آپ چاہے کسی بھی کام میں مصروف کیوں نہ ہوں، قادری صاحب کے بولنے کا انداز نہ صرف آپکے کانوں بلکہ آپکی آنکھوں کی توجہ بھی اپنی جانب مرکوز کر لیتا تھا۔ آجکل وہ ہماری کمپنی کے ایک سائیڈ آفس میں، وہاں کا حساب کتاب سنبھالے ہوئے تھے۔ ہماری دفتر جب بھی تشریف لاتے تو اِک محفل کا سا سماں بن جاتا۔  آپ کوئی بھی بات کرو جواباً قادری صاحب کی جانب سے کوئی شعر ضرور سُننے کو ملے گا۔ یہی وجہ ہے کہ تمام دوست احباب کی یہ  رائے تھی کہ طارق عزیز تو انکے سامنے کُچھ بھی نہیں۔ قادری صاحب خود بھی شاعری کیا کرتے تھے، عموماً اپنے کمپیوٹر پر خود ہی ٹائپ کرتے اور پھر پرنٹ نکالتے رہتے۔ حال ہی میں ہمارے دفتر آئے تو جیب سے اِک کاغذ نکالا اور چند اشعار پڑھ کر سنانے لگے۔ باتوں باتوں میں قادری صاحب وہ کاغز ساتھ لے جانا بھول گئے۔۔۔
ایک مرتبہ دفتر میں کسی شخص نے قادری صاحب کے کام میں مستقل رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کی۔ کافی صبر کے بعد قادری صاحب اُٹھے اور اُس شخص کے پاس جا کر نہایت نرم لہجے میں مخاطب ہوئے: ’’بھائی آپ برائے مہربانی ایسا کچھ مت کیجئیے جس سے میرے دِل میں آپکی جو عزت اور مقام ہے اُس میں کوئی کمی واقع ہو۔‘‘ قادری صاحب کے یہ الفاظ آج بھی مجھے بار بار یاد آتے ہیں۔ اور جب بھی یاد آتے ہیں تو چہرہ پر مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔


آج شام ایک ساتھی کی کال آئی اور اُنہوں نے یہ افسوسناک خبر سُنائی کہ قادری صاحب اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔ ایک لمحے کیلئے ساکت ہوجانا تو بجا تھا کیونکہ قادری صاحب ایک صحت مند انسان تھے اور اُنکے جاننے والا کوئی بھی شخص یہ گمان نہیں کر سکتا تھا کہ وہ اتنا جلد اللہ کو پیارے ہوجائیں گے۔  خیر دفتر کے تمام عملہ نے اُنکی نمازِ جنازہ میں شرکت کی۔ کفن دفن سے فارغ ہونے کے بعد، رات کو سونے سے قبل یاد آیا کہ قادری صاحب نے وہ اک کاغز پر سے جو اشعار پڑھ کر سُنائے تھے، ہوسکتا ہے کہ وہ کاغذ ابھی بھی دفتر میں ہی ہو۔ اگلی صبح میں جلدی سے دفتر روانہ ہوا اور جا کر وہ کاغز تلاش کرنے لگا، بالآخر مختلف کاغزوں کے نیچے سے وہ کاغز مل ہی گیا۔ اُس کاغذ کو پاکر اِک عجب سی خوشی محسوس ہوئی، میں کھڑے کھڑے وہ اشعار دوبارہ پڑھنے لگا۔ پڑھ کر میری جو کیفیات تھیں میں اُنکو بیان کرنے سے قاصر ہوں البتہ ایسا لگنے لگا گویا قادری صاحب کو اس بات کا علم تھا کہ اب دُنیا میں اُنکے دن صرف گنے چُنے رہ گئے ہیں۔ وہ اشعار آپکے سامنے پیش کر رہا ہوں۔
اُس کو فرصت ہی نہیں وقت نکالے محسن
ایسے ہوتے ہیں بھلا چاہنے والے محسن

یاد کے دشت میں  پھرتا ہوں ننگے پاؤں
دیکھ تو آکے کبھی پاؤں کے چھالے محسن

کھوگئی صبح کی اُمید  اور اب لگتا ہے
ہم نہیں ہونگے جب ہونگے اُجالے محسن

حاکم  وقت  کہاں  میں  کہاں  عدل  کہاں
کیوں نہ خلقت کی زباں پر لگیں تالے محسن

وہ جو اِک شخص متاع دل و جان تھا نہ رہا
اب بھلا کون  میرے درد سنبھالے  محسن
اللہ تعالٰی سے دُعا ہے کہ وہ مرحوم کی مغفرت فرمائے، اُنہیں جنت الفردوس میں بلند مقام عطا فرمائے اور اُنکے لواحقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔

باباجی ۔۔۔ بقیہ حصہ

ہم تو سوچتے ہیں کہ باباجی کے کوئی درجن ایک شہزادے ہوتے تو سبھی کمپنی کے کسی نہ کسی عہدے پر براجمان ہوتے۔ جی ہاں۔۔۔۔ کمپنی کے اکاونٹس مینیجر اپنا تجربہ بیان کرتے ہیں کہ اِک ماہ کی آخیر تاریخوں میں ہم نے حسبِ معمول کمپنی کے عملہ کی تنخواہوں کو مرتب کیا تو باباجی ہم سے مُخاطب ہوئے کہ کیا اس فہرست میں ہمارے چھوٹے شہزادے کا نام بھی ہے؟ نفی میں جواب دینا تو کُجا، ہم تو آنکھیں پھاڑے باباجی کی جانب تکنے لگے۔ جواب ملا کہ کیا آپکو نہیں معلوم ہمارا سترہ سالہ شہزادہ ہماری کمپنی کا نیا ڈرافٹس مین ہے۔ وہ اس ماہ ہماری کمپنی کے فلاں ڈیلر کے پاس بیٹھ کر اپنی خدمات سرانجام دیتا رہا ہے۔ لہٰذا اُسکی تنخواہ کا بھی شمار کیا جائے۔ تفتیش کرنے پر وہ ڈیلر بچے کا تایا نکلا۔ باباجی کے جانے کے بعد ہم نے چھوٹے شہزادے کا موبائل نمبر تلاش کیا اور کال ملائی، سلام دُعا کے بعد جناب سے پوچھا کہ حضرت دفتری اوقات میں کہاں غائب ہیں؟ آخر کو وہ کمپنی کے عملہ کا حصہ تھے اب، یہ پوچھنا ہمارا حق بنتا تھا۔ دوسری جانب سے جواب ایسی معصوم آواز میں موصول ہوا گویا نائیٹ پیکیچ کروا کر ہم کسی بچی سے گپیں مار رہے ہیں۔ ’’ جی۔۔۔ وہ۔۔۔۔ ابھی باجی کو یونیورسٹی سے لے کر آرہا ہوں۔ خیریت تو ہے نا؟ ‘‘ اب ہم کیا کہتے کہ بیٹا دفتر تشریف لائیے، یہ وقت باجیوں کو یونیورسٹی سے لانے کا نہیں بلکہ دفتر میں کام کرنے کا ہے۔ آخر کو آج جناب کی تنخواہ جو تیار ہورہی تھی۔
حساب کتاب کے مینیجر مزید فرماتے ہیں کہ ایک دن ہم حسبِ معمول اپنی نشست پر براجمان تھے کہ باباجی کی جانب سے ہمارا بلاوا آیا۔ جناب کے پاس حاضری دی تو معلوم ہوا کہ جناب کسی ادارے کے ٹینڈر کیلئے دستاویزات تیار کر رہے ہیں اور ہمیں باباجی کا دستاویزات تیار کرنے کا یہ مرحلہ نہایت دلچسپ لگا۔ جناب نے انٹرنیٹ سے کُچھ متعلقہ مواد ڈانلوڈ کیا اور پھر نقل کرنے لگے، وہی اجزاء، وہی مواد اور وہی قیمتیں اب جناب کی کمپنی کے دستاویزات کا حصہ تھیں۔ ہمارے شیر انجینئیر نے دوبارہ جسارت کرتے ہوئے باباجی کی عقل میں پھونک مارنے کی کوشش کی کہ جناب جس منصوبے کے ٹینڈر کیلئے آپ یہ دستاویزات تیار فرما رہے ہیں، اُسکیلئے ہمیں کُچھ مختلف مواد کی ضرورت ہوگی اور جو قیمتیں آپ چھاپے جا رہے ہیں وہ آج سے کئیں سالوں قبل کی ہیں، اگر ایسا ہی ٹینڈر بھرا تو منصوبے پر کام کرنا دُشوار ہوجائے گا۔ یہ کہنا تھا کہ باباجی کی کہانیاں شروع۔۔۔۔۔ کہ ہم نے فلاں فلاں منصوبوں پر کام کیا۔۔۔۔۔ یہ ہمارا طریقہ ہے۔۔۔۔۔ آپ ان باتوں کو نہیں سمجھیں گے۔۔۔۔۔ خیر باباجی ہماری طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے کہ یہ جو حساب کتاب ہم نے کیا، اسکا کُل کیجئیے کہ کتنا بنتا ہے۔ ہم نے بتایا کہ جناب یہ تو اتنا بن رہا ہے۔ کہنے لگے کہ نہیں یہ کُچھ زیادہ ہوگیا آپ ایسا کیجئیے کہ جو رقم سب سے بڑی ہے وہ بتائیے۔ ہمارے بتانے پر کہنے لگے کہ اس میں سے اتنے لاکھ کم کر دیجئیے، ہم نے ایک مرتبہ بلے جیسی موٹی موٹی آنکھوں سے باباجی کی جانب دیکھا اور پھر اُس رقم کو کم کردیا۔ خیر کُل کرنے پر جناب کو رقم پھر کافی بڑی لگی اور یوں یہ کھیل بار بار دُہرایا گیا۔۔۔۔ کوئی مانے نہ مانے۔۔۔۔ ہم تو اس کھیل سے بہت لُطف اندوز ہوئے۔۔۔۔
خیر ان تمام باتوں کے باوجود تقدیر باباجی کو کرنل کی وساطت سے رزق مہیا کئیے جا رہی ہے اور باباجی آجکل ہواؤں میں اُڑے جارہے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ آج نہیں تو کل باباجی جتنی اُونچائی سے زمین پر آگریں گے اُتنی ہی اُونچی ڈھزززززز ہو گی۔
خیر لیجئیے باباجی کا ایک کارنامہ مزید سُنتے جائیے۔۔۔ حسبِ معمول تمام عملہ دفتر میں بیٹھا مکھیاں مار رہا تھا وہ بھی اس ہوشیاری سے کہ دیکھنے والا سمجھنے لگے، ہو نہ ہو کشمیر تو اسی کمپنی نے فتح کرنا ہے۔ اچانک کُچھ خواتین زبردستی دفتر میں گھُسی آئیں۔ یہ خواتین دیکھنے سے کسی اچھے گھرانے سے تعلق رکھنے والی معلوم ہوتی تھیں مگر تھیں پیشہ ور بھکاری۔ وہ اکثر دفتر تشریف لاتیں اور پوچھنے پر بتاتی کہ ہمیں باباجی سے ملاقات کرنی ہے، عملہ کا ایک بندہ تو کہنے لگا کہ میں سمجھا یہ باباجی کی گھروالیاں ہیں لہٰذا کُچھ نہیں کہا۔ اتفاق سے وہ مانگنے والیاں جب بھی آتیں تو باباجی دفتر میں موجود نہ ہوتے لیکن آج بزرگوار بھی تشریف فرما تھے۔ مانگنے والیاں سیدھی باباجی کے پاس حاضر ہوئیں اور مالی امداد کی التجاء کرنے لگی۔ باباجی غُصے میں بولے کہ آخر چاہتی کیا ہو تم؟ اُن میں سے ایک بولی جناب ہماری مدد فرما دیجئیے۔ آہا۔۔ ہا۔۔ ہا۔۔۔ باباجی نے کیا پاکیزہ جواب دیا۔۔۔۔ کہنے لگے کہ جس مدد کی تم بات کرتی ہو وہ تو میں صرف اپنی بیوی کی کرتا ہوں۔۔۔۔ وہ دِن اور آج کا دِن، مانگنے والیاں مُڑ کر دوبارہ کبھی نہیں آئیں۔ شائید وہ باباجی سے ذیادہ عزت دار نکلیں۔ باباجی کی اس حاضر دماغی کو ہماری جانب سے دُر سلام۔
ہم اگر باباجی کے گُن گانے لگے تو کی بورڈ گھِس جائے گا، بجلی چلی جائے گی، لیپ ٹاپ کی چارجنگ مُک جائے گی لیکن ہمارے باباجی کی تعریف میں یہ قصیدے ختم ہونے کا نام نہیں لیں گے۔ خیر وہ دِن اور آج کا دن، ہم کسی بھی پاکستانی مصنوعات کو دیکھتے ہیں تو دماغ فوراً چھلانگیں مارنے لگتا ہے کہ ضرور اس مصنوعات کے پیچھے بھی کوئی نہ کوئی باباجی تشریف فرما ہوں گے۔

باباجی

بابا جی نے ساری زندگی نہایت تکالیف و مصائب کا سامنا کرتے ہوئے گزاری۔ لیکن اب تقدیر مہرباں ہوئی اور باباجی کو ایک ریٹائرڈ کرنل سے ملاقات کا اتفاق ہوا۔ کرنل بھی ایسا کہ جسکو دیکھ کر ہم ہمیشہ بدگمانی کا شکار ہوئے جاتے اور کرنل اور مُملکتِ زرداریوں کی فوج کے درمیان موازنہ کرنے لگتے۔ آخر اس نتیجے پر پہنچتے کہ ہمارے دیس کی فوج تو قطعاً ایسی مہذب ہو نہیں سکتی، یقیناً یہ کرنل بگڑا ہوا ہے جس میں انسانیت اور شرافت ابھی بھی کافی حد تک رچ بس رہی ہے۔ خیر۔۔۔ باباجی نے کرنل کے عُہدے، جیب اور اُسکے اس بگڑے پن ہمارا مطلب ہے کہ شرافت سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی۔ چند ملاقاتوں کے بعد باباجی نے کرنل کو اپنی ایک ٹھیکیدارانہ نوعیت کی کمپنی بنانے پر رضامند کر لیا۔ دونوں نے شراکت داری بھی ایسی کی، کہ جسکی سمجھ آج تک ہمارے اس ناقص دماغ میں نہیں آئی۔ آسان الفاظ میں بتائے دئیے دیتے ہیں کہ سرمایہ داری ساری کرنل کی اور منیجمنٹ باباجی کی۔
دراصل باباجی پیشے سے ایک ٹھیکیدار تھے لیکن اب کرنل سے ملاقات کے بعد اپنی ٹھیکیداری کو مُکمل بھُلا چُکے ہیں۔ کرنل نے دفتری اور قانونی کاغذوں میں اپنے آپکو مینیجنگ ڈائریکٹر (ایم۔ڈی) کہلوانا شروع کردیا، یہ دیکھا دیکھی باباجی کو بھی شے چڑی اور اُس دن کے بعد باباجی بھی کپمنی کے ڈائریکٹر ٹیکنیکل کہلوانے لگے۔ ٹھیکیداری کے دور میں باباجی کی کُل تعلیم فقط ایک ڈپلومہ تھا لیکن ڈائریکٹر ٹیکنیکل بننے کے بعد دفتری کاغذوں میں باباجی کے نام کے ساتھ مکینیکل انجینئیر لکھا جانے لگا۔ ٹھیکیداری کے دوران باباجی نے مُختلف ٹھیکیداروں کے جو جو بڑے بڑے قصے سُنے اب وہ تمام باباجی کی شخصیت کے ساتھ منسلک ہونے لگے۔ جی ہاں! دفتری عملہ ہو یا کسی محکمہ میں کوئی میٹینگ، اب باباجی کی ہر بات کا آغاز اپنے تجربات سے ہی ہونے لگا اور تجربات کی فہرست بھی ایسی کہ جو ختم ہونے کا نام ہی نہ لے۔ ہر ایسا منصوبہ جو انکے کسی جاننے والے یا کسی بڑے ٹھیکیدار نے مکمل کیا ہو اب وہ باباجی کا ہی کارنامہ کہلانے لگا۔
باباجی نے کُرسی پر تشریف رکھنے کے بعد ایک اچھے پاکستانی ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے برابر کی کُرسی اپنے جانشین کیلئے مُختص فرما دی۔ جی ہاں اپنے شہزادہ کو اماں کی گود سے اُٹھوا کر دفتر میں بلوایا اور جناب کی کُرسی پر پراجیکٹ مینیجر کی تختی لگوا دی۔ ہم تو سوچتے ہیں کہ بچہ تو ہکا بکا رہ گیا ہوگا کہ ارے یہ ہمارے ساتھ ہوا کیا۔ ہم تو ابھی بھی جناب کو یاد کرتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے گویا منہ میں چوسنی ڈالے پراجیکٹ مینیجر کمپنی کے تمام برتن توڑے جارہا ہے۔۔۔ ارے جی کمپنی کے برتن تو کمپنی کے معاملات ہی ہوتے ہیں نا۔۔۔ تو سمجھ ہی جائیے۔۔۔ خیر عملہ میں سے ہمارے اِک باہمت شیر نے پراجیکٹ مینیجر کی تعلیم پوچھنے کی جسارت کی تو معلوم ہوا کہ جناب ایک انجینئیر ہیں یہ علیحدہ بات ہے کہ بغل میں ڈگری نہیں۔۔۔ بقول جناب کے، یونیورسٹی کا (پی۔ای۔سی) پاکستان انجنئیرنگ کونسل سے کوئی لانجھا چل رہا ہے جسکی وجہ سے طلبہ کو ڈگری کے بغیر ہی فارغ کیا جا رہا ہے۔ ایسی بھی کوئی بات نہیں، ہمیں جناب کی زبان پر پورا بھروسہ ہے، کہہ رہے ہیں تو سچ ہی ہوگا۔ آخر ہوئے جو ایک مہذب پاکستانی، بھروسہ کر کے لِتّر کھانا ہماری ایک پُرانی عادت ہے۔  

(جلدی کا کام شیطان کا، لہٰذا انتظار فرمائیے۔ بقیہ حصہ جلد ہی شائع کر دیا جائے گا۔۔۔۔۔۔۔ )

ہمارا قصور

میں ٹیلیویژن آجکل بہت کم دیکھ پاتا ہوں۔ کوئی خاص خبر وغیرہ ہو تو انٹرنیٹ کی وساطت سے ہی تفصیلات جان لیا کرتا ہوں۔ آج بھی میں کسی کام سے گھر سے باہر گیا ہوا تھا، جوں ہی گھر میں داخل ہوا تو خبر ملی کہ اُسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں امریکی آپریشن کے دوران ہلاک ہوگیا۔ اتنی بڑی خبر سُن کر میں نہ صرف ہکلا گیا بلکہ بہت سے سوالات بھی ذہن میں گردش کرنے لگے۔ ۔ ۔

اُسامہ بن لادن پاکستانی حدود میں ہلاک؟

امریکی فوج کا آپریشن؟

جس میں امریکی ہیلی کاپٹروں نے بھی حصہ لیا؟

وہ بھی ایبٹ آباد جیسے علاقہ میں؟  

انہی سوالات کے حصولِ جوابات کیلئے میں نے اپنا لیپ ٹاپ آن کیا اور نیٹ گردی شروع کردی۔ مُختلف ویب سائیٹس پر تفصیلات پڑھنے کے بعد بھی میرے دماغ کی اُلجھنیں وہیں گردش کر رہی تھیں۔ بالآخر مُجھے احساس ہوا کہ یہ سب ڈرامہ ہے جس میں حقیقت کا کوئی پہلو نہیں۔ جہاں تک بات ہے اُسامہ بن لادن کی اُس فوٹو کی جو میڈیا بار بار دِکھا رہا ہے تو اُسکی حقیقت فقط یہ ہے:

آپ فوٹوشاپ کی مدد سے کسی بھی تصویر کو کوئی بھی رُخ دے سکتے ہیں۔ یوں تو کوئی بھی بچہ کل کو اوبامہ کی یہ تصویر بھی دُنیا کے سامنے لا کر کہہ سکتا ہے کہ میں نے باراک اوبامہ کو ہلاک کر دیا۔ تصویر ملاحضہ کیجئیے:
انٹرنیٹ پر یوں ہی مُختلف خبریں اور تفصیلات پڑھتے پڑھتے میں یاہو کی ویب سائٹ پر ایک متعلقہ خبر تک پہنچا، اُسکی تفصیلات پڑھیں اور پڑھنے کے بعد نیچے کئے گئے تبصرے پڑھنے لگا۔ چند تبصرے پڑھے تو مزید تبصرے پڑھنے پر بھی مجبور ہوگیا۔ ایک صفحے پر موجود تمام تبصرے پڑھنے کے بعد جب اگلے صفحے کو کھولاتو تبصروں کی تعداد میں سینکڑوں گناہ اضافہ ہوچُکا تھا۔ میں جوں جوں اگلا صفحہ کھولتا گیا، تبصرے سینکڑوں کی تعداد میں بڑھتے گئے۔ نہ جانے وہ کس رفتار سے بڑھ رہے تھے مگر میں فقط یہ جانتا ہوں کہ پوری دُنیا سے لوگوں کی اِک کثیر تعداد وہاں بیک وقت تبصرے کئے جارہی تھی۔ انٹرنیٹ پر اس تلاش کے دوران کسی خبر یا کسی تحریر نے میرا اتنا وقت نہیں لیا جتنا کہ ان تبصروں نے۔ کسی خبر یا تحریر کے پڑھنے سے میرا لہو گرمایا نہ ہی میرے جزبات میں کوئی اضافہ ہوا مگر یہ تبصرے پڑھ کر مُجھے اپنی ایک پوسٹ ’’ریمنڈ کی رہائی پر تاثرات‘‘ میں ایک دوست کا وہ جملہ یاد آگیا جو اُسنے فیس بُک پر ریمنڈ ڈیویس کی رہائی کے موقع پر کہا تھا:

Ashamed.... I don't want to be a Pakistani any more

مزید کُچھ کہنے سے قبل میں آپکے سامنے انہی تبصروں کی کُچھ تصاویر پیش کررہا ہوں ۔ ۔ ۔







جی ہاں پوری دُنیا خصوصاً امریکی عوام کا بچہ بچہ مُجھے گالیاں دے رہا ہے۔ کیونکہ پاکستان کو ملنے والی ہر گالی مُجھے مل رہی ہے، آپ کو مل رہی ہے اور اس دیس کے ہر اُس بچے کو مل رہی ہے جسکا آج دنیا میں روزِ اوّل ہے اور ہر اُس ضعیف العمر شخص کو مل رہی ہے جو آج اس دُنیائے فانی میں اپنی زندگی کے آفتاب کو غروب ہوتا ہوا دیکھ رہا ہے۔ میرے خیال سے مُجھے یہ بتانے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں کہ ہمارا قصور کیا ہے۔ ۔ ۔

دو قوتیں

میں پوسٹ آفس کی کھڑکی سے اندر ہاتھ کئے اس انتظار میں کھڑا تھا کہ کب پوسٹ ماسٹر اپنے کام سے فارغ ہوکر میرے ہاتھ سے یہ لفافہ لے گا۔  اچانک میرے کندھے کے اوپر سے اِک ہاتھ کھڑکی کی جانب بڑھا جس میں ایک سفید رنگ کا لفافہ تھا اور اِک آواز اُبھری ’’ایکس کیوز می ! یہ پیکٹ کب تک لاہور پہنچ جائے گا؟‘‘ آواز اس بات کا ثبوت دے رہی تھی کہ یہ ایک پڑھا لکھا اور کسی اچھے گھرانے سے تعلق رکھنے والا نوجوان ہے۔ میں اپنی جگہ سے ایک جانب کو تھوڑا سا سِرک کیا تاکہ نوجوان اپنی درکار معلومات پوسٹ ماسٹر سے بآسانی حاصل کر سکے۔ لیکن نوجوان نے دوبارہ کوئی سوال نہ کیا لہٰذا میں ایک مرتبہ پھر اپنی جگہ کو ہولیا اور ہاتھ کھڑکی سے اندر کرتے ہوئے لفافہ اندر بیٹھے شخص کے حوالے کردیا۔

میں پوسٹ آفس میں بیٹھے اُس شخص کے کام میں اس قدر مگن تھا کہ مجھے احساس ہی نہیں ہوا کہ میرے پیچھے کوئی کھڑا اپنی باری کا انتظار کر رہا ہے۔ وہ کون ہے اور میرے پیچھے کب سے کھڑا ہے؟ مجھے اس بات کا قطعاً اندازہ نہیں تھا۔ اب میری نظریں پوسٹ آفس میں بیٹھے اُس شخص کے کام پر ٹِکی ہوئی تھیں مگر میرے ذہن میں نوجوان کی آواز گردش کر رہی تھی۔ اُسکی آواز مجھے جانی پہچانی لگی مگر وہ کون ہے؟ کیا میں پہلے کبھی اس نوجوان سے ملا؟ اگر ملا تو کب اور کہاں؟ انہیں سوالوں کے جواب کے حصول کیلئے میں نے پیچھے مُڑ کر دیکھنا چاہا، ابھی میں اس نوجوان کی ایک جھلک ہی دیکھ پایا تھا کہ پوسٹ آفس میں بیٹھے شخص کی آواز گونجی: ’’سَر پینتالیس روپے!‘‘ میں نے فوراً کھڑکی کی جانب رُخ کرتے ہوئے جیب کو ٹٹولا اور پچاس روپے نکال کر کھڑکی سے اندر پکڑا دئیے۔ اتنی دیر میں نوجوان کی آواز اُبھری: ’’ہیلو! جی جی۔۔۔ بس میں دس منٹ تک آرہا ہوں۔ ۔ ۔ ٹھیک۔ ۔ ۔ ٹھیک ۔ ۔ ۔ اوکے۔ ۔ ۔ اللہ حافظ‘‘۔ یہ آواز سُننی تھی کہ اچانک مجھے یاد آیا کہ آج سے نو دس سال قبل، پُرانے محلے میں میرا ایک پڑوسی تھا۔ ہوبہو ایسی ہی آواز۔ ۔ ۔ نہایت اچھے اخلاق۔ ۔ ۔ خوبصورت اندازِ گفتگو۔ ۔ ۔
’’سَر یہ آپکے بقایا پانچ روپے اور یہ رسید! ‘‘ ایک مرتبہ پھر پوسٹ آفس میں بیٹھے شخص نے میرے خیالات کے تسلسل میں خلل پیدا کیا۔ میں نے پانچ روپے کا سِکہ اور رسید جیب میں ڈالی اور واپس کو مُڑا۔ نوجوان مُجھے جاتا دیکھ کر جلدی سے کھڑکی کی جانب بڑھا۔ کیونکہ اب نوجوان کے پیچھے دو اور حضرات کھڑے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ پوسٹ آفس سے چند قدم چل کر پارکنگ تک آتے ہوئے مُجھے اس بات کا یقین سا ہونے لگا کہ یہ وہی میرا پڑوسی تھا۔ میرے دماغ میں نو دس سال پُرانی یادیں تازہ ہوگئیں۔ میں سوچنے لگا کہ میں نوجوان سے آخر کیوں نہ ملا؟ شائید میں اُسے سہی پہچان نہ سکا تھا یا شائید مُجھے جانے کی جلدی تھی۔ ۔ ۔ لیکن وہ خود بھی تو مُجھ سے مل سکتا تھا۔ ۔ ۔ شائید اُسنے مُجھے پہچانا نہ ہو۔ ۔ ۔ لیکن میں تو آگے تھا پیچھے کھڑے شخص کو دیکھ نہ سکا مگر وہ تو میرے پیچھے کھڑے تھا۔ ۔ ۔ مجھے بآسانی دیکھ سکتا تھا۔ ۔ ۔ میرے اور میرے دماغ کے ان سوالات و جوابات کا سلسلہ تب ٹوٹا جب دِل نے کہا کہ مُجھے واپس جا کر نوجوان سے ملنا چاہئیے۔ اتنے عرصے بعد مُلاقات کا موقع ملا ہے، مُجھے ضرور ملنا چاہئیے۔ ۔ ۔ لیکن پھر جواب ملا کہ نہیں ! اُس وقت نہیں ملے تو اب کِس منہ سے ملو گے؟ اُسکو کیا کہو گے کہ میں تب کیوں نہ ملا جب پوسٹ آفس کے باہر کھڑا تھا؟؟ 
میں اِک عجیب کیفیت میں مبتلا تھا۔ میں نہیں جانتا کہ مُجھے اُس کیفیت کو کیا نام دینا چاہئیے؟ مُجھے ایسا محسوس ہورہا تھا گویا دوقوتیں مجھے دائیں بائیں سے اپنی اپنی جانب کو کھینچ رہی ہیں۔ وہ کونسی دو قوتیں تھی جن میں سے ایک مُجھے میرے پُرانے پڑوسی سے ملوانا چاہتی تھی اور دوجی، جو یہ مُلاقات نہیں چاہتی تھی؟؟ نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے اپنی راہ اختیار کی۔ ۔ ۔ کیونکہ میں پہلے ہی دفتر سے بہت لیٹ ہوچکا تھا۔ لیکن اب بھی میں سوچ رہا ہوں کہ وہ کونسی دو قوتیں تھیں؟ اور مُجھے اُس کیفیت کو کیا نام دینا چاہئیے؟؟؟

ریمنڈ کی رہائی پر تاثرات


ریمنڈ ڈیویس کی رہائی کے بعد فیس بُک پر چند دوستوں کے خیالات۔۔۔۔  










یادداشت کھو گئی


’’اللہ نے دس سال بعد مجھے بیٹے کی نعمت سے نوازا۔ اپنے لعل کی بہترین تربیت کروں گی بلکہ میں تو کہتی ہوں اللہ نے اسے ہمارے بڑھاپے کا سہارا بنا کر بھیجا  ہے۔‘‘
’’بیگم میں تو اپنی تمام تر کمائی اپنے بیٹے کی پڑھائی پر صرف کروں گا۔ اسے بہترین تعلیم دلواؤں گا تاکہ پڑھ لکھ کر اسکا  مستقبل روشن ہوجائے۔"
’’اور پھر ہم اپنے چاند سے بیٹے کیلئے کسی اچھے گھرانے کی پڑھی لکھی اور خوبصورت سی لڑکی تلاش کریں گے۔‘‘
بیٹے کی پیدائیش  پر ہی اُسکے مستقبل کے بارے میں لمبے لمبے خواب دیکھے جانے لگتے ہیں اور لمحہ بھر میں بات شادی تک آن پہنچتی ہے۔ لیکن یہ بات صرف بیٹوں تک ہی محدود نہیں۔۔۔
دوسری جانب اللہ ایک گھرانے کو پہلی بیٹی کی صورت میں اپنی رحمت سے نوازتا ہے۔ والدین  نہ صرف نہایت پُر مسرت دِکھائی دیتے ہیں بلکہ روزِ اوّل سے ہی  اپنی بیٹی کے مستقبل کے بارے میں فکر مند بھی ہونے لگتے ہیں۔ وہی خواب۔۔۔ اچھی تربیت۔۔۔ اچھی تعلیم۔۔۔ بہت سی خوشیاں۔۔۔ اور بالآخر ان خواہشات کی قطار کا اختتام شادی کے موضوع پر ہوتا ہے۔  
لڑکا بہترین ذریعۂ معاش حاصل کرچکتا ہے اور لڑکی بھی اپنی پڑھائی سے فارغ ہونے کو ہوتی ہے کہ والدین میں اولاد کے رشتوں کی فکر  زور اختیار کر لیتی ہے۔ اُنہیں اُٹھتے بیٹھتے،چلتے  پھرتے غرض لمحہ بہ لمحہ صرف اور صرف اپنی اولاد کے رشتوں کی فکر لاحق رہنے لگتی ہے۔ بلاشبہ رشتے تو آسمانوں پر ہی بنتے ہیں لیکن آسمانوں پر بنے ان رشتوں کو ملنے میں عموماً کافی وقت لگ جاتا ہے۔ لہٰذا کچھ عرصہ مناسب رشتہ نہ ملنے پر والدین راتوں کو جاگ جاگ کر اپنی اولاد کے رشتے کیلئے دُعائیں مانگنے لگتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بیٹی کا معاملہ تو ہوتا ہی حساس ہے لیکن لڑکے کے والدین بھی کم پریشان نہیں ہوتے ۔ کہیں والدین  خاندان سے باہر رشتہ نہیں کرنا چاہتے تو کہیں خاندان میں  موجود تمام رشتوں کو ٹھُکر ا دیا جاتا ہے اور ایسی صورتِ حال میں تمام رشتہ دار تاک لگائے بیٹھ جاتے ہیں کہ جناب اپنے لئے کیسی بہُو کا انتخاب کرتے ہیں؟ یوں والدین کی فکر میں مزید اضافہ ہوا جاتا ہے۔ خیر بات بیٹی کے رشتے کی  ہو یا بیٹے کے، دونوں صورتوں میں والدین فکر مند رہتے ہیں، لمبی لمبی تسبیحات، دُعاؤں اور وظائف کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اور تو اور خانہ کعبہ کے سامنے بھی سجدہ ریز ہوکر جہاں بہت سی دُعائیں کی جاتی ہیں وہیں اولاد کے رشتے کیلئے  بھی خصوصی دُعائیں مانگی جاتی ہیں۔غرٖض دن رات اللہ سے رابطہ استوار رہتا ہے۔
خیر اللہ اللہ کر کے رشتہ طے پاتا ہے۔۔۔  اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے مواقع والدین کی راحت و فرحت کا باعث بنتے ہیں۔  لہٰذا نہ صرف والدین بلکہ دوسرے عزیز و اقارب بھی اس خوشی سے پھولے نہیں سماتے اور یہ خوشی کی چوٹ اس حد تک گہری لگتی ہے  کہ انسان اپنی یادداشت ہی کھو بیٹھتا ہے۔ وہ راتوں کا جاگ  جاگ کر نوافل پڑھنا، لمبی لمبی تسبیحات اور وظائف کا اہتمام کرنا حتٰی کہ حرم پاک میں بھی سجدہ ریز ہو کر جو دُعائیں کیں، آج وہ سب بھول گئیں۔۔۔ وہ ضعیف العمر عورت جسکی ٹانگیں قبر میں ہیں آج اُسکی بھی جوانی اُبھر آئی۔۔۔ جس کے ہاتھ میں  ہمیشہ تسبیح رہتی تھی آج یہی عورت اپنے سر کے آنچل کو بھی بھُلا بیٹھی۔ خاندان کے وہ بزرگ جنکی صبح و شام اللہ اللہ کرتے ٖصرف ہوتی تھی، آج وہ بھی اپنی عمر، اپنے وہ سجدے، سب بھُلا بیٹھے۔۔۔ اپنے ہی گھرانے کی بیٹیاں، جنکو اپنی عزت سمجھا کرتے تھے، آج اُنکو سرِعام ناچتا دیکھ کر خوش ہوا جاتا ہے۔ چلو ہمارا کوئی دین مذہب نہیں، ہمیں آخرت کی فکر نہیں لیکن کیا شریف اور معزز خاندانوں کی عزتیں یوں ہی سرِعام ناچا کرتی ہیں؟ کیا یہی عزت ہے ان معزز گھرانوں کی؟
ہم بھول جاتے ہیں کہ ہمیں اللہ دیکھ رہا ہے، وہ ہماری ان تمام نافرمانیوں سے ہر ہر لمحہ باخبر ہے،  ہم بھول جاتے ہیں کہ ہمارا ایک ایک عمل ہماری جنت بنا رہا ہے یا پھر جہنم۔۔۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ ہمارے نبی نے اپنی اور اپنی بیٹیوں کی شادیاں کیسے کیں ۔۔ یہ بھلا دیا جاتا ہے کہ اس دُنیا میں رہتے ہوئے ، ایک مسلمان ہونے کی حیشیت سے میں اپنی من چاہی کے مطابق زندگی نہیں گزار سکتا، میرے لئے کچھ اُصول اور حدود متعین فرما دی گئی ہیں جنکی پاسداری کرنا ہی میرے حق میں بہتر ہے۔ ابھی بھی وقت ہے میں اپنے ضمیر کے دروازے پر دستک دے سکتا ہوں اور اپنی اس بھولی ہوئی یادداشت کو واپس لا سکتا ہوں ورنہ ذلت و خواری کی ایک لامحدود زندگی میرا انتظار کر رہی ہے جہاں ماسوا پچھتاوے کے کچھ کام نہیں آئے گا۔
Powered by Blogger.
۔
Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...