بدلتے مزاج

’’تم بدل گئے ہو۔۔۔‘‘
’’آپ بہت تبدیل ہوگئے ہیں۔۔۔۔‘‘
’’تم پہلے جیسی نہیں رہی۔۔۔۔۔‘‘
اِس مختصر سی زندگی میں یہ وہ جملے ہیں جو آپ نے عموماً سُنے یا کہے ہوں گے۔ دراصل انسان اور زندگی کی مثال صحرا کے ریت کے ذروں اور آندھیوں کی مانند ہے۔ زندگی نام ہی اِن آندھیوں کا ہے جو اپنے ساتھ ریت کے ذرات کو اُڑائے پھرتی ہیں۔ گویا زندگی جب اپنے تیور بدلتی ہے تو انسان کو بدل کر رکھ دیتی ہے۔ انسان کتنا ہی ہنس مُکھ کیوں نہ ہو، زندگی کے یہ طوفاں اُسکو سنجیدہ مزاج بنا دیتے ہیں، انسان کتنا ہی دولتمند کیوں نہ ہو، یہ طوفاں اُس سے پلک جھپکنے میں سب کچھ چھین لیتے ہیں، اِک راہگیر کو شہنشاہ اور شہنشاہ کو راہگیر بنانا اِن طوفانوں کیلئے قطعاً دُشوار نہیں، خوشیوں کو غموں اور غموں کو خوشیوں میں بدلنا، یہ سب اِن طوفانوں کا معمول ہے۔ لہٰذا میرے خیال میں اگر اِک انسان خوش مزاج ہے تو اِس میں اُسکا ذاتی کوئی کمال نہیں۔ اِسکے برعکس وہ جو تنہائی پسند اور سنجیدہ مزاج ہے، اِس میں بھی اُسکا ذاتی کوئی قصور نہیں، یہ سب زندگی کے طوفانوں کا کمال ہے جنہوں نے اِس انسان کو بدل کر رکھ دیا۔
دوسرے پیرائے میں دیکھا جائے تو درحقیقت اِن طوفانوں کے پیچھے قدرت کا ہاتھ ہے جو بذریعہ زندگی کے طوروخم، اِنسان کی شخصیت کو بدل ڈالتی ہے۔ قصۂ مختصر، تمہید سے مقصود، جب انسان کی شخصیت اور اُسکے مزاج کی تخلیق یا بدلنے کی بنیادی وجہ زندگی کے طوروخم اور حالات ہیں تو ہمیشہ انسان کو ہی اُسکے مزاج پر کیوں کوسہ جاتا ہے؟ مانتا ہوں قدرت کی رضا کے مطابق انسان کے بس میں بھی مزاج کی بہتری کی سعی کرنا ہے لیکن پھر بھی عموماً زندگی کے مسلسل طوفاں اِنسان کی مثبت کوششوں کو بھی ہوا کر دیتے ہیں۔ وہ چاہے کتنا ہی معاشرے میں گھُل مل کر جینا چاہے، دوست یاروں کے شوروغل میں اپنے قہقہوں کو بلند کرنا چاہے، حالات اُسکو تنہائی پسند بنا ہی دیتے ہیں اور اپنے مزاج میں مزاح پیدا کرنے کی وہ کتنی ہی جستجو کیوں نہ کرے، یہ طوفاں پلک جھپکنے میں اُسکو سنجیدگی پر مجبور کر دیتے ہیں۔ اِس تمام کے برعکس وہ انسان جسکو تنہائی، سنجیدگی اور خاموشی سے نفرت ہو اور جس کا ہر پل مزاح، شرارتوں اور یاروں میں گزرے، اِس میں بھی اُسکا نہیں بلکہ حالات کا کمال ہے جنہوں نے اُسکی خوشیوں اور شریر مزاجی کو قائم رکھا ہوا ہے۔
---------------------------------------------------------
آپ میرے مؤقف سے کس حد تک اتفاق کرتے ہیں اور اگر نہیں تو کیوں؟ اِن خیالات کا اظہار تبصرے کے صورت میں کیجئیے۔

بھیا کی تہہِ دِل سے دُعا ہے کہ اللہ تبارک وتعٰلی مُجھ سمیت آپ سب کی زندگیوں کی ایسے طوفانوں سے حفاظت فرمائے رکھے جو اپنے ہمراہ آپکی خوشیوں، راحت، رشتوں اور رشتوں کے پیار کو بھی اُڑا لے جائیں۔ اِسکے برعکس میری تمام چنچل، شریر اور خوش مزاج افراد سے گزارش ہے کہ اپنی خوشگوار زندگی پر اللہ کا شکر ادا کرتے ہوئے ایسے افراد پر تنقید سے پرہیز کیجئیے جو زندگی کے طوفانوں کے پے در پے وار سے نڈھال، ہمت کھو بیٹھے ہیں، جو مایوسی کی فضا میں اِک خاموش زندگی بسر کرتے ہوئے مُسکراتے تو ہیں لیکن اِنکی ہر مُسکراہٹ اور قہقہے کے پیچھے بھی اِک درد چھُپا ہوا ہوتا ہے۔ نہ صرف یہ بلکہ ایسے افراد کیلئے اپنے قیمتی وقت میں سے کچھ وقت نکال کر اِن سے پیار و محبت کے بول بولئیے، اِنکے غموں کو سُنئیے اور اپنی خوشیوں کو اِن سے بانٹنے کی سعی کیجئیے۔ ہوسکتا ہے آپکا یہ عمل آپکی خوشیوں، راحت اور کامیابیوں میں اضافے کا باعث بنے۔

میں بھیا ہوں

جب سے اِس گلوبل ویلیج خصوصاً بلاگنگ کی دُنیا میں بنام ’’عادل بھیا‘‘ قدم رکھا، تب سے اِک سوال کا سامنا بکثرت کرتا چلا آرہا ہوں۔ یوں تو سوالات عموماً انسان کو پریشان کئے دیتے ہیں لیکن اِس سوال کو سُن کر میں ہر مرتبہ اِک انجانی سی خوشی محسوس کرتا ہوں اور ہو بھی کیوں نہ، جب سوال کرنے والے کا اندازِ سوال کچھ دِلچسپ ہو۔ جی ہاں! میں نے مشاہدہ کیا ہے کہ آج تک یہ سوال کرنے والے ہر شخص کا اندازِ سوال دِلچسپ، اُسکی لبوں پر مسکراہٹ اور آنکھوں میں شرارت کی تجلی ہوتی ہے۔
آپ یہ سوال جاننے کیلئے بیقرار ہورہے ہوں گے جبکہ بیشتر کو اندازہ ہوچکا ہوگا کہ میں کس سوال کی بات کررہا ہوں۔ تو سُنئیے! دراصل میرا پہلا ایمیل ایڈریس اور موجودہ بلاگ جو کہ دونوں بنام ’’عادل بھیا‘‘ ہیں کو دیکھ کر بیشتر قارئین بشمول دوست احباب اور چند عزیزواقارب یہ سمجھتے ہیں کہ اپنے نام کے ساتھ ’’بھیا‘‘ منصوب کرنے کی کوئی خاص وجہ یا اِسکے پیچھے کوئی خاص پسِ منظر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیشمار قارئین یہ جاننا چاہتے ہیں، بیشمار مُجھ سے یہ سوال کر چکے ہیں اور تاحال اِس طرز کے سوالات کا سامنا اکثر و بیشتر کرتا رہتا ہوں کہ اپنے نام کے ساتھ ’’بھیا‘‘ منصوب کرنے کی کیا وجہ ہے؟ کیا اِسکے پیچھے کوئی خاص پسِ منظر ہے؟ میں کیا سوچ کر ’’بھیا‘‘ کہلواتا ہوں اپنے آپکو؟ وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔
(اِس وغیرہ وغیرہ کو فضول مت سمجھئے گا کیونکہ اِس میں یاروں کی بہت سی دِلچسپ قیاس آرائیاں شامل ہیں۔)

خیر۔۔۔ سب کو بارہا یقین دِلانے کے باوجود کہ اِسکے پیچھے کوئی خاص وجہ نہیں ہے، سوچا کیوں نہ ایک تفصیلی تحریر ہی لکھ دی جائے (تاکہ سند رہے)۔ شائید اپنے نام کے ساتھ بھیا لگانے کی وجہ میرے ایک اُستادِ محترم ہیں۔ جی ہاں! درحقیقت چھٹی جماعت میں میرے ایک اُستاد تھے جنکے بقول تمام مسلمان آپس میں بھائی بھائی ہیں اور اِسکی عملی تعلیم ہم اُساتذہ نے ہی بچوں کو دینی ہے۔ لہٰذا اُنہوں نے تمام طلبہ کیلئے یہ قانون سختی سے نافذ کر رکھا تھا کہ سب ایک دوسرے کو اُنکے ناموں کے ساتھ بھائی اور بہن کہہ کر پکاریں گے۔ قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف سخت مولا بخش کاروائی عمل میں لائی جاتی تھی۔ جسکا نتیجہ یہ تھا کہ دو طلبہ آپس میں جھگڑنے کے بعد اُستادِ محترم کو شکایت بھی کچھ اِس انداز سے لگایا کرتے تھے:
’’سر علی بھائی میری پنسل واپس نہیں کر رہے۔۔۔‘‘
’’ نہیں سر جنید بھائی مُجھے میری کتاب نہیں دے رہے۔۔۔‘‘
’’سرررر!! علی بھائی کہہ رہے ہیں کہ بچو تُو باہر نکل، میں تُجھے بتاتا ہوں
۔۔۔‘‘

اِس اسکول کو چھوڑے ہوئے اِک لمبہ عرصہ بھیت گیا لیکن سب کو بھائی بھائی کہنا مُجھے آج بھی بہت بھلا لگتا ہے۔ (یاد رہے یہ مسلمانوں کے بھائی چارے والا بھائی ہے نہ کہ لندن کے چارے والا!)۔ یہی وجہ ہے کہ اپنا پہلا ایمیل ایڈریس بناتے ہوئے میں نے اپنا یوزرنیم ’’عادل بھائی‘‘ رکھنے کی کوشش کی لیکن یہ نام پہلے استعمال ہوچکا تھا لہٰذا میں نے ایسے ہی مختلف یوزرنیمز رکھنے کی پے درپے کوشش کی لیکن ہر کے جواب میں یاہو ایک نئے نام کے ساتھ نئی کوشش کرنے کو کہتا۔ بالآخر میں نے بھائی کے آگے دو حروف ’’ya‘‘ لگا کر کوشش کی (جو کہ بھیا بنتا ہے) تو یاہو نے قبول کر لیا۔ وہ دِن اور آجکا دِن، انٹرنیٹ کی دُنیا میں ہر جگہ اِس نام کی بآسانی دستیابی کی بناء پر میں اپنے تمام اکاؤنٹس میں یوزرنیم ’’عادل بھیا‘‘ ہی استعمال کرنے لگا۔ اِسی تسلسل میں بلاگنگ کا آغاز کرتے ہوئے پہلا نام جو ذہن میں آیا وہ ’’عادل بھیا‘‘ ہی تھا لہٰذا اِسی نام سے ہی بلاگ بنایا اور آج آپکے سامنے۔۔۔ قصہ مختصر بس یہی وہ معمولی سا پسِ منظر ہے جسکی وجہ سے میں نے اپنے نام کے ساتھ بھیا منصوب کر رکھا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ نہ صرف دوستوں بلکہ چند اُن رشتہ داروں نے بھی مُجھے بھیا کہنا شروع کر دیا ہے جو میرے بلاگ سے واقف ہیں۔ بات صرف یہاں تک محدود نہیں رہی بلکہ اب تو دفتر میں بھی رفتہ رفتہ ’’بھیا‘‘ کا ڈھنڈورا پیٹا جانے لگا ہے۔ غرض مُجھے خوشی ہمیشہ فقط اِس بات کی ہوتی ہے کہ قارئین بشمول دوست اور عزیزواقارب اِسکو کچھ دِلچسپ پیرائے میں لیتے ہیں۔ جسکی بناء پر اب کسی کے بھی منہ سے اپنے لئے بھیا سُن کر بہت اچھا لگتا ہے کیونکہ میں مکمل طور پر تسلیم کر چکا ہوں کہ ’’میں بھیا ہوں!‘‘

انسانی آئینہ کی تلاش

میں اِک کثیر عرصہ سے کسی ایسے انسانی آئینہ کی تلاش میں ہوں جس میں مُجھے اپنا عکس نظر آئے۔ یہی وجہ ہے کہ جس انسان سے بھی ملتا ہوں، اُس میں اپنا آپ ڈھونڈنے لگتا ہوں۔ کچھ انسان جو دِل کو بھا جاتے ہیں، جن کی کچھ ادائیں دِل میں گھر کر لیتی ہیں، میں اپنی جان، مال اور وقت کی پروا کئے بناء اُنکے قریب ہونے کی کوشش کرتا ہوں اور گر چند لمحوں کیلئے اُنکا ساتھ نصیب ہو جائے تو اُن میں اِک عادل تلاش کرنے لگتا ہوں۔ ہاں اُنکی چھوٹی چھوٹی عادات میرے مشاہدے سے گزرنے لگتی ہیں کہ شائید کوئی عادت مجھ سے مشابہ ہو۔ میں اِس سفر میں بہت سے افراد سے ملا جن میں بچوں سے لے کر جوان اور ضعیف العمر مردوخواتین شامل ہیں۔ کچھ لوگوں کے قریب ہوتے ہی یہ احساس ہوتا ہے کہ مجھ میں اور اِن میں زمین آسمان کا فرق ہے لہٰذا میں واپسی کی راہیں ہموار کرنے لگتا ہوں جبکہ کچھ افراد سے مل کر اپنا آپ سا محسوس ہونے لگتا ہے۔ میں اُنکی عادات کا مزید گہرائی میں مشاہدہ کرنے لگتا ہوں۔ ایسے میں کسی کی سوچ کا کچھ حصہ مُجھے اپنی سوچ سے اور کسی کی کوئی ایک یا زائد عادات مُجھے اپنی عادات سے ملتی جلتی دِکھائی دینے لگتی ہیں۔ خوشی تو تب ہوتی ہے جب ایک فرد کی بیشتر عادات اور سوچ، میری عادات اور سوچ سے مشابہ ہوں۔

افسوس اِس بات کا ہے کہ اِس سفر میں ہمیشہ ایک ہی نتیجہ نکلا کہ اِس دُنیا میں دو اِنسان قطعاً ایک جیسے نہیں ہوسکتے۔ ایسا کوئی نہ کوئی موڑ ضرور آتا ہے جہاں میں دائیں کو جانا چاہوں گا اور میرا ہمسفر بائیں کو۔ اِس نتیجہ سے مایوس ہو کر نجانے کتنی ہی مرتبہ یہ فیصلہ کر چکا ہوں کہ اب یہ سفر طے کرنا چھوڑ دوں۔ لیکن شائید کسی ایسے انسان کی یہ تلاش میری فطرت میں ہے۔ مُجھے یوں محسوس ہوتا ہے گویا جس اِنسان کی مُجھے تلاش ہے وہ مل جائے گا لیکن پھر یہ سوچ کر اپنے ہی لئے لبوں پر اِک مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔ شائید یہ اپنی بیوقوفی پر اِک طنزیہ مسکراہٹ ہوتی ہے کہ اِس سفر میں جو نتیجہ ہمیشہ سے نکل رہا ہے میں ابھی بھی اسکی نفی کرتے ہوئے اُس سے مخالف نتیجہ کی اُمید رکھتا ہوں۔ اِس سفر کا ایک نقصان، میرا ہر دوسرے شخص سے بے پناہ مخلص ہو جانا ہے۔ اِس مخلصی میں میں نے ہمیشہ دوسروں کی ذات کو اپنی ذات پر ترجیح دی، اپنے قیمتی وقت میں سے دوسروں کیلئے وقت نکالا، ممکنہ حد تک اُنکے معاملات میں اُنکا ساتھ دیا، اُن کیلئے ہمیشہ مثبت سوچ رکھی۔۔۔ لیکن۔۔۔۔ اِس سب کے باوجود اِسی مخلصی میں متعدد بار ڈسا جاچکا ہوں۔ لہٰذا یہ جاننے کے باوجود کہ ہر کسی کی فطرت، محسوسات (Feelings)، عادات، جذبات اور سوچ کا یہ مشاہدہ شائید میری فطرت بن گئی ہے یا نجانے عادت، اب اِک مرتبہ پھر میں نے اپنے اِس سفر کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے!!

مگر اِس سفر کی حسین یادوں کو میں کبھی بھُلا نہ پاؤں گا۔ مُجھے خوشی ہے کہ میں نے اِس عرصہ کے دوران بہت سے لوگوں کی فطرت کو پڑھنے کی کوشش کی۔ بیشتر اوقات اپنے آپکو دوسروں کی جگہ رکھ کر بھی سوچا جسکے نتیجے میں میں نے ہمیشہ بہت کچھ پایا اور سیکھا۔ میرے نزدیک میرے اِس سفر نے مُجھے نہ صرف بہت اطمینان اور سکون دِلایا بلکہ اِس دُنیا کی بہت سی پوشیدہ حقیقتوں اور اُصولوں سے بھی روشناس کروادیا۔ بلاشبہ یہ اِک حسین سفر تھا

بلاگی دوستوں کے نام

بلاگستان نے میرا ہمیشہ سے لکھنے کا شوق پورا کیا اور مُجھے اپنے اظہارِ خیالات کی کھلی آزادی دیتے ہوئے اِنہیں دُنیا کے سامنے لانے کو موقع دیا۔ بیشتر اُردو بلاگران جس لگن اور جذبے سے انٹرنیٹ کی دُنیا میں اُردو کے فروغ کیلئے کوشاں ہیں وہ بلاشبہ قابل تحسین ہے۔ ایک خوش آئیند بات جو مجھے بہت پسند ہے وہ یہ کہ بلاگران ایک دوسرے سے کسی نہ کسی صورت میں رابطے میں ہیں۔ سوشل نیٹ ورکنگ سائیٹس اور آن لائن چیٹنگ وغیرہ کے علاوہ، اب بیشتر بلاگران کے آپس میں براہِ راست روابط بھی ہیں اور مزے کی بات کہ یہ روابط دھیرے دھیرے دوستیوں کی اشکال اختیار کرنے لگے ہیں۔ مُلک بلکہ دُنیا کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے اُردو بلاگران اب آپس میں بہترین دوست بنتے جارہے ہیں۔ کوئی اور رابطہ ہو نہ ہو، ہم سب کا بنیادی رشتہ ایک ہی گھرانے (یعنی بلاگستان) سے تعلق رکھنا ہے۔ :)

تمام بلاگران ایک دوسرے کی تحاریر کو پڑھنے کے علاوہ اِن پر خوب اظہارِخیالات کرتے ہیں اور اہم موضوعات کو زیرِبحث بھی لاتے ہیں۔ اِسی تسلسل میں ایک بات جو مُجھے ہمیشہ سے بُری لگتی رہی وہ ایک دوسرے کی تحاریر (بلاگی پوسٹوں) کے جواب میں لمبی چوڑی تحاریر لکھنا ہے اور اکثر یہ سلسلہ زیادہ طول اختیار کر جاتا ہے۔ بلاگران ایک دوسرے کی تحاریر کے جواب میں ایسی تحاریر لکھتے ہیں جو کسی تیسرے شخص کی سمجھ سے بالا تر ہوتی ہیں۔ پھپھے کٹنی، آنٹی اور بارہ سنگھا اِسی طرح کے سلسلوں کے مشہور کردار رہ چکے ہیں۔ جن پر بیشتر بلاگران نے بے شمار پوسٹیں لکھیں۔ اِسکے برعکس ایک ایسا سلسلہ جسے تمام بلاگران نہایت پسند کرتے ہیں اور بلاشبہ جسکی وجہ سے اِس گھرانے کے تمام افراد کا آپس میں رابطہ قائم رہا (جو کہ ایک خوش آئیند بات ہے) وہ چند خاص سوالات کے جوابات دے کر کسی دوسرے بلاگر کو ٹیگ کرنا ہے۔ ٹیگ زدہ بلاگر کو لازماً انہی سوالات کے جوابات دے کر کسی اور بلاگر کو ٹیگ کر کے اِس سلسلے کو جاری رکھنا ہوتا ہے۔ لیکن ایک بات جو مجھے اِن تمام تحریری سلسلوں میں مایوس کرتی ہے وہ یہ کہ کسی بھی نئے قاری کو ہماری ایسی تحاریر کی نہ تو سمجھ آتی ہے اور نہ ہی اُسکی اِن میں کوئی خاص دلچسپی ہوتی ہے۔ یوں پڑھنے والا اپنے دماغ میں انٹرنیٹ پر موجود اُردو تحاریر کا ایک منفی تاثر لے کر جاتا ہے اور دوبارہ کسی بھی اُردو بلاگ کو پڑھنے سے اجتناب برتتا ہے۔ لہٰذا میرے خیال سے ہر بلاگر کو کسی ایک بلاگر یا اُسکی کسی تحریر کے جواب میں لکھنے کی بجائے پوری دُنیا کو سامنے رکھتے ہوئے لکھنا چاہئیے۔ اگر کسی ایک بلاگر یا کسی بلاگر کی تحریر کے جواب میں لکھنا بھی ہو تو اِس انداز میں لکھا جائے کہ ہر قاری تحریر کو پڑھ کر نہ صرف بآسانی سمجھ سکے بلکہ تحریر سے پوری طرح لطف بھی اُٹھاسکے۔

بلاشبہ ایک بلاگرکیلئے تمام اُردو بلاگران کو مخاطب کرنے کا بہترین ذریعہ بلاگی پوسٹ (یعنی بلاگ پر تحریر) ہے لیکن جس نقطہ کی وضاحت میں کرنا چاہ رہا ہوں وہ یہ کہ بیشتر بلاگران کی ہر دوسری پوسٹ ہی کسی خاص بلاگر یا کسی بلاگ پوسٹ کے جواب میں ہوتی ہے۔ ہمیں ضرور ایک دوسرے سے رابطے میں رہنا چاہئیے لیکن اِسکا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ ہماری ہر تحریر ہی ایک دوسرے کیلئے ہو (چاہے اِسکی وجہ اپنے بلاگ کی تشہیر ہی کیوں نہ ہو) اور ہم اپنے لکھنے کا حقیقی مقصد کھو بیٹھیں۔

اِک انسان ہونے کے ناطے میری سوچ غلط یا مُجھے کوئی غلط فہمی بھی ہوسکتی ہے۔ اگر ایسا ہے تو آپ سے مثبت تبصروں کی اُمید رکھتا ہوں جو میری سوچ یا غلط فہمی کی تصیح کیلئے فائدہ مند ثابت ہوں گے وگرنہ میری تمام اُردو بلاگران سے گزارش ہے کہ ایسی پوسٹیں لکھنے میں کمی لائی جائے جن کا دائرہ کار فقط ایک بلاگر یا چند بلاگران تک محدود ہو۔ اِسکے برعکس ایسی تحاریر ذیادہ سے ذیادہ لکھنے کی کوشش کی جائے جو پوری قوم بلکہ پوری انسانیت کیلئے فائدہ مند ہوں۔

Powered by Blogger.
۔
Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...