زندگی کے اس سفر میں آئے دن کوئی نیا چہرہ ملتا ہے، بہت سے لوگ آپکی زندگی میں آتے ہیں اور بہت سے لوگ آپکی زندگی سے ہمیشہ کیلئے چلے جاتے ہیں مگر آپ کسی کی خاطر یا کوئی آپکی خاطر رُکتا نہیں، ہر کوئی اپنی منزل کی جانب رواں دواں ہے۔ کہیں کسی ہمسفر کا ملنا آپ کیلئے باعثِ مسرت ہے تو کہیں کسی کا جانا۔۔۔ اسکے برعکس عموماً کسی ہمسفر کے ملنے سے آپ پریشان ہوجاتے ہیں اور اکثر کسی کے جانے سے آپکو اپنی زندگی اُجڑتی ہوئی دِکھائی دینے لگتی ہے۔۔۔ لیکن یہ سفر یوںہی جاری و ساری رہتا ہے۔ انسان اپنی منزل کی جانب لگاتار چلتا جارہا ہے، راہ میں ملنے والے چہروں کی جانب کبھی مُسکرا کر دیکھ لیتا ہے تو کبھی کسی کو دیکھ کر ماتھے پر تیوری چڑھا لیتا ہے لیکن لمحہ بھر کیلئے بھی رُکتا نہیں۔۔۔ کہیں انسان کا گزر کسی ایسے وقت سے ہوتا ہے جہاں رشتہ دار، دوست احباب اور باقی لوگوں کا اِک ہجوم ہے۔ اس ہجوم میں کچھ افراد اس انسان کی جانب ہاتھ بڑھاتے ہیں لیکن یہ اُنسے منہ پھیرتے ہوئے اپنی راہ چلتا رہتا ہے اور کہیں یہ کسی سے ملنے کو بے چین ہوا جاتا ہے لیکن وہ اس سے منہ پھیر لیتے ہے۔۔۔
یوں ہی چلتے چلتے اکثر انساں کا گزر کسی صحرا نما وقت سے ہوتا ہے جہاں دور دور تک کوئی ہمسفر دِکھائی نہیں دیتا، عموماً چلتے چلتے، صحرا کے اُتار چڑھاو کا سامنا کرتے کرتے وہ تھک جاتا ہے لیکن کوئی سہارا دینے کو نہیں ملتا۔ ایسے وقت میں جب تکالیف و مصائب حد سے بڑھنے لگیں تو وہ اپنے آنسوؤں سے صحرا کی ریت کو نم کرتا چلا جاتا ہے لیکن کوئی آنسو پونجھنے کو نہیں ہوتا۔ بالآخر انساں اپنی منزل کو پہنچ جاتا ہے۔۔۔
خیر میں اپنی اصل بات کی جانب بڑھتا ہوں۔ دراصل زندگی کے اس سفر میں تو آئے دن بہت سے لوگ ملتے ہیں لیکن کچھ لوگ اپنی عمدہ یادیں چھوڑ جاتے ہیں۔ اُنکے ساتھ گزرے چند لمحات ایسے ہی یاد آتے ہیں گویا ابھی چند لمحوں پہلے کی بات ہو۔ ایسی ہی چند یادیں قادری صاحب کے ساتھ گزرے ہوئے وقت کی ہیں۔ قادری صاحب نہایت خوش اخلاق، نیک انسان اور اِک ادبی شخص تھے۔ وہ اُردو زبان کا بےحد ذوق رکھتے تھے۔ اُنہوں نے اُردو کے حوالہ سے اپنی بہت سی خدمات ٹیلیویژن پر بھی سرانجام دیں۔ اُنکے بولنے کا انداز ایسا پرکشش تھا کہ آپ چاہے کسی بھی کام میں مصروف کیوں نہ ہوں، قادری صاحب کے بولنے کا انداز نہ صرف آپکے کانوں بلکہ آپکی آنکھوں کی توجہ بھی اپنی جانب مرکوز کر لیتا تھا۔ آجکل وہ ہماری کمپنی کے ایک سائیڈ آفس میں، وہاں کا حساب کتاب سنبھالے ہوئے تھے۔ ہماری دفتر جب بھی تشریف لاتے تو اِک محفل کا سا سماں بن جاتا۔ آپ کوئی بھی بات کرو جواباً قادری صاحب کی جانب سے کوئی شعر ضرور سُننے کو ملے گا۔ یہی وجہ ہے کہ تمام دوست احباب کی یہ رائے تھی کہ طارق عزیز تو انکے سامنے کُچھ بھی نہیں۔ قادری صاحب خود بھی شاعری کیا کرتے تھے، عموماً اپنے کمپیوٹر پر خود ہی ٹائپ کرتے اور پھر پرنٹ نکالتے رہتے۔ حال ہی میں ہمارے دفتر آئے تو جیب سے اِک کاغذ نکالا اور چند اشعار پڑھ کر سنانے لگے۔ باتوں باتوں میں قادری صاحب وہ کاغز ساتھ لے جانا بھول گئے۔۔۔
ایک مرتبہ دفتر میں کسی شخص نے قادری صاحب کے کام میں مستقل رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کی۔ کافی صبر کے بعد قادری صاحب اُٹھے اور اُس شخص کے پاس جا کر نہایت نرم لہجے میں مخاطب ہوئے: ’’بھائی آپ برائے مہربانی ایسا کچھ مت کیجئیے جس سے میرے دِل میں آپکی جو عزت اور مقام ہے اُس میں کوئی کمی واقع ہو۔‘‘ قادری صاحب کے یہ الفاظ آج بھی مجھے بار بار یاد آتے ہیں۔ اور جب بھی یاد آتے ہیں تو چہرہ پر مسکراہٹ پھیل جاتی ہے۔
آج شام ایک ساتھی کی کال آئی اور اُنہوں نے یہ افسوسناک خبر سُنائی کہ قادری صاحب اب ہمارے درمیان نہیں رہے۔ ایک لمحے کیلئے ساکت ہوجانا تو بجا تھا کیونکہ قادری صاحب ایک صحت مند انسان تھے اور اُنکے جاننے والا کوئی بھی شخص یہ گمان نہیں کر سکتا تھا کہ وہ اتنا جلد اللہ کو پیارے ہوجائیں گے۔ خیر دفتر کے تمام عملہ نے اُنکی نمازِ جنازہ میں شرکت کی۔ کفن دفن سے فارغ ہونے کے بعد، رات کو سونے سے قبل یاد آیا کہ قادری صاحب نے وہ اک کاغز پر سے جو اشعار پڑھ کر سُنائے تھے، ہوسکتا ہے کہ وہ کاغذ ابھی بھی دفتر میں ہی ہو۔ اگلی صبح میں جلدی سے دفتر روانہ ہوا اور جا کر وہ کاغز تلاش کرنے لگا، بالآخر مختلف کاغزوں کے نیچے سے وہ کاغز مل ہی گیا۔ اُس کاغذ کو پاکر اِک عجب سی خوشی محسوس ہوئی، میں کھڑے کھڑے وہ اشعار دوبارہ پڑھنے لگا۔ پڑھ کر میری جو کیفیات تھیں میں اُنکو بیان کرنے سے قاصر ہوں البتہ ایسا لگنے لگا گویا قادری صاحب کو اس بات کا علم تھا کہ اب دُنیا میں اُنکے دن صرف گنے چُنے رہ گئے ہیں۔ وہ اشعار آپکے سامنے پیش کر رہا ہوں۔
اُس کو فرصت ہی نہیں وقت نکالے محسن
ایسے ہوتے ہیں بھلا چاہنے والے محسن
یاد کے دشت میں پھرتا ہوں ننگے پاؤں
دیکھ تو آکے کبھی پاؤں کے چھالے محسن
کھوگئی صبح کی اُمید اور اب لگتا ہے
ہم نہیں ہونگے جب ہونگے اُجالے محسن
حاکم وقت کہاں میں کہاں عدل کہاں
کیوں نہ خلقت کی زباں پر لگیں تالے محسن
وہ جو اِک شخص متاع دل و جان تھا نہ رہا
اب بھلا کون میرے درد سنبھالے محسن
اللہ تعالٰی سے دُعا ہے کہ وہ مرحوم کی مغفرت فرمائے، اُنہیں جنت الفردوس میں بلند مقام عطا فرمائے اور اُنکے لواحقین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے۔
انا للہ وانا الیہ راجعون ۔اللھم اغفرہ وارحمہ ولاتعذبہ ۔
ReplyDeleteallah un ki magfirat farnaay
ReplyDeleteاِنّا للہ و انا اليہ راجعون ۔ اللہ قادری صاحب کو جنت ميں جگہ دے
ReplyDeleteايسے خوش اخلاق لوگ اب کمياب ہيں
Adil, It is the way of life. Although it hurts, but nothing can be done except to keep the deceased in your prayers.
ReplyDeleteKhawer Ahmed
تحریر پڑھنے اور دُعاوں کا شکریہ۔ اللہ اُنکے اور تمام مرحومین کے حق میں ہماری دُعاوں کو قبول فرمائے۔ آمین۔
ReplyDeleteKhawar Ahmed Bro:: Yup no doubt, a lot of prayers for your father too. BTW thnx a lot for reading the post & for ur comment :)
ap ny bilkul theek kaha kuch humsafar bohat achi yadain chor jaty hain:)
ReplyDeleteAllah Ta'ala Qadri sahab ki magafirat farmaiy.ameen
is mouqy per mujy b aik shair yaad aa gia:)
"Bichrra Wo is adaa say k rott hi badal gai
Ik shakhas sary shyhar ko wiraan ker gya"
نینا:: آمین۔ لگتا ہے قادری صاحب کی طرح آپکو بھی شاعری کا زوق ہے :پ
ReplyDeleteاللہ مرحوم کی مغفرت کرے آمین ۔۔
ReplyDeleteآمین ثم آمین
ReplyDeleteاِنّا للہ و انا اليہ راجعون ۔ اللہ قادری صاحب کو جنت ميں جگہ دے۔آمین ثم آمین
ReplyDeleteبہت خوب بہت اچھےشہرلکھےہیں واقعی ان کی شخصیت کی عاکسی کرتےہیں
bohat achi blog hay apki........ajj pehli dafa dekhi hay......bohat acha laga perh ker....best of luck....duain....
ReplyDeleteجاوید بھیا @ آمین۔۔۔
ReplyDeleteفہمیدہ اشتیاق @ میرے بلاگ پر خوش آمدید۔ پسندیدگی کے اظہار پر شکریہ۔ آئیندہ بھی تشریف لاتی رہئیے گا۔