میں پوسٹ آفس کی کھڑکی سے اندر ہاتھ کئے اس انتظار میں کھڑا تھا کہ کب پوسٹ ماسٹر اپنے کام سے فارغ ہوکر میرے ہاتھ سے یہ لفافہ لے گا۔ اچانک میرے کندھے کے اوپر سے اِک ہاتھ کھڑکی کی جانب بڑھا جس میں ایک سفید رنگ کا لفافہ تھا اور اِک آواز اُبھری ’’ایکس کیوز می ! یہ پیکٹ کب تک لاہور پہنچ جائے گا؟‘‘ آواز اس بات کا ثبوت دے رہی تھی کہ یہ ایک پڑھا لکھا اور کسی اچھے گھرانے سے تعلق رکھنے والا نوجوان ہے۔ میں اپنی جگہ سے ایک جانب کو تھوڑا سا سِرک کیا تاکہ نوجوان اپنی درکار معلومات پوسٹ ماسٹر سے بآسانی حاصل کر سکے۔ لیکن نوجوان نے دوبارہ کوئی سوال نہ کیا لہٰذا میں ایک مرتبہ پھر اپنی جگہ کو ہولیا اور ہاتھ کھڑکی سے اندر کرتے ہوئے لفافہ اندر بیٹھے شخص کے حوالے کردیا۔
میں پوسٹ آفس میں بیٹھے اُس شخص کے کام میں اس قدر مگن تھا کہ مجھے احساس ہی نہیں ہوا کہ میرے پیچھے کوئی کھڑا اپنی باری کا انتظار کر رہا ہے۔ وہ کون ہے اور میرے پیچھے کب سے کھڑا ہے؟ مجھے اس بات کا قطعاً اندازہ نہیں تھا۔ اب میری نظریں پوسٹ آفس میں بیٹھے اُس شخص کے کام پر ٹِکی ہوئی تھیں مگر میرے ذہن میں نوجوان کی آواز گردش کر رہی تھی۔ اُسکی آواز مجھے جانی پہچانی لگی مگر وہ کون ہے؟ کیا میں پہلے کبھی اس نوجوان سے ملا؟ اگر ملا تو کب اور کہاں؟ انہیں سوالوں کے جواب کے حصول کیلئے میں نے پیچھے مُڑ کر دیکھنا چاہا، ابھی میں اس نوجوان کی ایک جھلک ہی دیکھ پایا تھا کہ پوسٹ آفس میں بیٹھے شخص کی آواز گونجی: ’’سَر پینتالیس روپے!‘‘ میں نے فوراً کھڑکی کی جانب رُخ کرتے ہوئے جیب کو ٹٹولا اور پچاس روپے نکال کر کھڑکی سے اندر پکڑا دئیے۔ اتنی دیر میں نوجوان کی آواز اُبھری: ’’ہیلو! جی جی۔۔۔ بس میں دس منٹ تک آرہا ہوں۔ ۔ ۔ ٹھیک۔ ۔ ۔ ٹھیک ۔ ۔ ۔ اوکے۔ ۔ ۔ اللہ حافظ‘‘۔ یہ آواز سُننی تھی کہ اچانک مجھے یاد آیا کہ آج سے نو دس سال قبل، پُرانے محلے میں میرا ایک پڑوسی تھا۔ ہوبہو ایسی ہی آواز۔ ۔ ۔ نہایت اچھے اخلاق۔ ۔ ۔ خوبصورت اندازِ گفتگو۔ ۔ ۔
’’سَر یہ آپکے بقایا پانچ روپے اور یہ رسید! ‘‘ ایک مرتبہ پھر پوسٹ آفس میں بیٹھے شخص نے میرے خیالات کے تسلسل میں خلل پیدا کیا۔ میں نے پانچ روپے کا سِکہ اور رسید جیب میں ڈالی اور واپس کو مُڑا۔ نوجوان مُجھے جاتا دیکھ کر جلدی سے کھڑکی کی جانب بڑھا۔ کیونکہ اب نوجوان کے پیچھے دو اور حضرات کھڑے اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ پوسٹ آفس سے چند قدم چل کر پارکنگ تک آتے ہوئے مُجھے اس بات کا یقین سا ہونے لگا کہ یہ وہی میرا پڑوسی تھا۔ میرے دماغ میں نو دس سال پُرانی یادیں تازہ ہوگئیں۔ میں سوچنے لگا کہ میں نوجوان سے آخر کیوں نہ ملا؟ شائید میں اُسے سہی پہچان نہ سکا تھا یا شائید مُجھے جانے کی جلدی تھی۔ ۔ ۔ لیکن وہ خود بھی تو مُجھ سے مل سکتا تھا۔ ۔ ۔ شائید اُسنے مُجھے پہچانا نہ ہو۔ ۔ ۔ لیکن میں تو آگے تھا پیچھے کھڑے شخص کو دیکھ نہ سکا مگر وہ تو میرے پیچھے کھڑے تھا۔ ۔ ۔ مجھے بآسانی دیکھ سکتا تھا۔ ۔ ۔ میرے اور میرے دماغ کے ان سوالات و جوابات کا سلسلہ تب ٹوٹا جب دِل نے کہا کہ مُجھے واپس جا کر نوجوان سے ملنا چاہئیے۔ اتنے عرصے بعد مُلاقات کا موقع ملا ہے، مُجھے ضرور ملنا چاہئیے۔ ۔ ۔ لیکن پھر جواب ملا کہ نہیں ! اُس وقت نہیں ملے تو اب کِس منہ سے ملو گے؟ اُسکو کیا کہو گے کہ میں تب کیوں نہ ملا جب پوسٹ آفس کے باہر کھڑا تھا؟؟
میں اِک عجیب کیفیت میں مبتلا تھا۔ میں نہیں جانتا کہ مُجھے اُس کیفیت کو کیا نام دینا چاہئیے؟ مُجھے ایسا محسوس ہورہا تھا گویا دوقوتیں مجھے دائیں بائیں سے اپنی اپنی جانب کو کھینچ رہی ہیں۔ وہ کونسی دو قوتیں تھی جن میں سے ایک مُجھے میرے پُرانے پڑوسی سے ملوانا چاہتی تھی اور دوجی، جو یہ مُلاقات نہیں چاہتی تھی؟؟ نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے اپنی راہ اختیار کی۔ ۔ ۔ کیونکہ میں پہلے ہی دفتر سے بہت لیٹ ہوچکا تھا۔ لیکن اب بھی میں سوچ رہا ہوں کہ وہ کونسی دو قوتیں تھیں؟ اور مُجھے اُس کیفیت کو کیا نام دینا چاہئیے؟؟؟
ایک خواہش آپکی اس شخص کو امپریس کرنے کی تھی اور دوسری خواہش آپکی اس شخص سے ایک دفعہ پھر سے امپریس نہ ہونا چاہنے کی تھی ۔
ReplyDeletejab dil or damag alag alag faisly krain to aysa hi hota hy but I think apko mulaqat kr lyni chahiay thi:)..........
ReplyDeletejab dil or dmag alag alag faisly krain to aysa hi hota hy but I think apko un sy mil lyna chahiay tha ho sakta hy unhon ny waqia hi apko na pyhchana ho..........
ReplyDeleteعادل بس نخرے اور کچھ نہیں :P اگر آپ پہلے نہیں ملے بعد میں جا کے ملتے تو بہانہ بنانا سیکھیں وہ بھی ایسا جو شک و شبہ سے پاک ہو اور دوسرے کو آپ کی بات پر یقین آ جائے :)
ReplyDeleteکیفیت نہیں جناب یہ دیر سے آفس پہنچنے کا خوف ھوگا۔
ReplyDeleteبھیا ناراض نہ ہونا۔
ReplyDeleteایک ۔۔۔۔۔۔آپ کا نخرہ ہوسکتا ہے۔
دو ۔۔۔۔۔خوداعتمادی کی کمی جس سے آپ بروقت فیصلہ نہ کرسکے۔
تین۔۔۔۔۔۔کچھ نہیں۔
bohat khoobsrat bat likhi hey aap ney, bakhuda aap ney bohat khoobsurti sey is kashmaksh ko bayan kia hey, jo aaj hamarey muashrey men dheerey dheerey perwan chrdrh rahi hey, jis ke zad men tarqqu yafta mumalik bohat pehley aa chuey hen.
ReplyDeleteyeh kashmakash muashrey sey ikhlaqiat ki rukhsati aur mufadat ki aamad key sath peda hoti hey, jab hamara bahimi taulluq insan key bejaey relatives, class fellows, coolegues, vendor, customer men tabdeel ho jatey hen.
yeh shanasaun ka talluq abhi mazeed tootey ga aur akheer men sirf aur sirf mufadat ka talluq reh jaey ga
qamar
علمِ طبیعیات کی رو سے ایک قوت کا نام "مرکز مائل قوت" اور دوسری کا نام "مرکز گریز قوت" ہے۔
ReplyDeleteاور علم نفسیات کے مطابق آپ کے دل میں یا اس کے دل میں کوئی چور تھا۔ اتنی وضاحت کافی ہے یا مزید آپ کے علم میں اضافہ کروں؟
:P
انسان کے اندر ايک قوت چھُپی ہوتی ہے جو اسے ہر وقت اس کی بڑھائی کا احساس دلاتی ہے يعنی اُسے سبق ديتی ہے کہ تو بڑا ہے نيچا مت ہو ۔ اسے انا کہتے ہيں
ReplyDeleteدوسری قوت اچھائی کی ہے جو ہر وقت انسان کو انسانيت کی خاطر سرنگوں ہونے کا کہتی ہے
maloom nahi bye
ReplyDeleteجاہل اور سنکنی جناب:: میرا نہیں خیال ویسا ہے جیسا آپنے کہا لیکن بالفرض اگر ایسا ہی ہے تو یہ دونوں خواہشات پیدا کیسی ہوئیں؟ انکی وجہ؟
ReplyDeleteنینا:: جی شائید آپکی بات دُرست ہے۔ تبصرہ کر کے رائے دینے کا بہت شکریہ :)۔
حجاب:: اللہ نے تازی تازی صحت دی ہے۔ کُچھ تو خیال کرو (اپنی صحت کا)۔ جھُوٹ بولنے کا دِل نہیں چاہتا ویسے بھی جب جھوٹ بولوں تو یوں محسوس ہوتا ہے گویا میری شکل میری زباں کا ساتھ نہیں دے رہی اور دوسرے شخص کو بآسانی حقیقت کا اندازہ ہوگیا ہوگا
فکرِ پاکستان:: جی میرا بھی یہی خیال ہے کہ شائید مُجھے جلدی تھی جانے کی اور کوئی بات نہ ہو۔۔۔ خیر تبصرہ کرنے کا شکریہ
یاسر بھیا:: آپسے ناراض ہوں قادیانی یا ایم کیو ایم والے۔۔۔ بھلا ہم کیوں ناراض ہوں گے :ڈ ویسے آپکی تینوں باتوں سے اتفاق کرتا ہوں
قمر بھیا:: اللہ ہم سب پر اپنا رحم فرمائے اور اللہ نہ کرے ویسا ہو جیسا آپ کہہ رہے ہیں۔ خیر اتنا خوبصورت تبصرہ کرنے کا بے حد شکریہ۔ آپکی سوچ دیکھ کر خوشی ہوئی۔ آئیندہ بھی بلاگ پر تشریف لاتے رہئیے گا۔
سعد بھیا:: سوچ رہا ہوں کہ دوسری والی بات کی وضاحت کا سوال کروں :پ بھیا ایسا کونسا چور تھا جو مُجھے بھی نہیں معلوم۔
افتخار اجمل صاحب:: آپنے جن دو قوتوں کا زکر کیا مُجھے اُن دونوں کا کوئی خاص تعلق اس پوسٹ سے نہیں لگتا۔ میں آپکو غلط نہیں کہہ سکتا، ہوسکتا ہے کہ آپکے دلائل سے میں قائل ہوسکوں۔
sumtymx waqt aur halaat insaan ko kahin se kahin
ReplyDeletele jaty hain
ap usse milna chahte the
per
ho sakta hai
k wo
kisi
aur se
milne ki ja;ldi man ho
ap
chahte hue b
usko follow kar skte the
magar
wo apko
1st view
man hi nahi pehchana
kiuke
uski nazar per kuch aur tha
ho sakta hai wo bht toot chuka ho
ya
hadse xayada hush bhi
magar
ye jo
quat haina
iska naam
aik
kashmakash hai
kuch to us man tha
jo apko uski taraf khinch raha tha
ab ye apko jawab dena hai
k
wo kya baat hai
really nice article .... love ur thoughts and view !!!!!!!!!!
ReplyDeleteاجنبی:: برائے مہربانی اپنا تبصرہ نام کے ساتھ کیا کریں۔۔۔ دوسری بات ایسا کُچھ خاص نہیں ہے۔
ReplyDeleteAtika baji:: Thanks a lot for your so nice comment
جناب مجھے اگر اپ کبھی ڈھوک کبھے میں ملے تو میں نے نہیں سوچنا وچنا۔
ReplyDeleteڈائیریکٹ جھپی ڈال دینی ہے
ہاہاہا! امتیاز بھیا۔۔۔ آپنے تو کوئی ملنا وِلنا نہیں بلکہ مُجھ سے اُلٹا میرا موبائل نمبر بھی لے کر بھاگ جانا ہے :D
ReplyDeleteجناب میں اپ کو ضرور رابطہ کرتا لیکن آپ نے نمبر دیتے وقت مجھ سے جو گمان رکھا تھا میں فقط اس گماں کا بھرم رکھ رہا تھا کہ کہیں آپ غلط نہ ثابت ہو جائیں۔
ReplyDeleteاپ دوبارہ اچھے گمان کے ساتھ نمبر رسال کیجیئے مجھے بہت قریب ہی پائیں گے آپ۔۔
اس سوال سے تو مجھے اکثر واسطہ پڑتا ہے اور ابھی تک جواب کی تلاش میں ہوں کہ ایک قوت کام پر کیوں مجبور کرتی ہے اور دوسری اسی کام سے کیوں روکتی ہے حالانکہ اس کام کے کرنے یا نہ کرنے میں کوئی بڑی برائی کا خدشہ نہیں ہوتا ..
ReplyDeleteامتیاز بھیا:: اب بہانے مت بنائیے۔۔ رابطہ کرنے کیلئے ہی نمبر دیا تھا نا بھیا۔۔ خیر میرے پاس آپکا کوئی ایمیل ایڈریس وغیرہ نہیں ہے۔ آپ میرے بلاگ کے رابطہ کے صفحے پر جا کر میرا ایمیل ایڈریس لے سکتے ہیں۔ آپ کے رابطے کا انتظار رہے گا :)
ReplyDeleteجواد بھیا:: بلاگ پر خوش آمدید۔ جی یہ مسئلہ تقریباً ہر شخص کے ساتھ ہوتا ہے مگر شائید ہم اسے محسوس نہیں کر پاتے۔ خیر اس سوال کا جواب ملا تو مُجھے بھی مطلع کیجئیے گا :)