درندہ صفت

یحیٰ کا آپریشن الحمدللہ کامیابی سے ہوگیا ہے اور اب تو وہ گھر بھی آگیا لیکن تاحال بیڈ پر ہی ہے۔ پہلے اُسکی ٹانگ کے نیچے تین تکئیے رکھے جاتے تھے جبکہ اب ڈاکٹروں نے اُنہیں تین سے کم کر کے ایک کرنے کا کہا ہے۔ اِس سے آپ اُسکی موجودہ حالت کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔

خیر بڑھتا ہوں اُس بات کی جانب جس نے آج مجھے لکھنے پر مجبور کیا۔ دراصل آپریشن کے بعد یحیٰ کو جس وارڈ میں منتقل کیا گیا، وہیں کچھ فاصلے پر ایک اِکیس سالہ لڑکی اپنے بیڈ پر لیٹی تکلیف سے بلبلا رہی تھی۔ نوجوان لڑکی کی تکلیف ناقابلِ دید تھی اور اُسکی ماں آنسو بہاتے ہوئے اُسے بار بار دلاسا دے رہی تھی۔ باپ نہایت بے چینی کے عالم میں ڈاکٹروں کے پاس چکر لگارہا تھا۔ غرض مجھ جیسے نازک دِل انسان کیلئے یہ پورا منظر دیکھنا ہی نہایت اذیت کا سبب بنا۔
یہ نوجوان لڑکی ایک پرائیویٹ فرم میں ملازمت کرتی ہے۔ ایک دن دفتر جانے کیلئے بس سٹاپ پر کھڑی تھی کہ کچھ لفنگے ایک گاڑی میں آئے اور جاتے جاتے لڑکی کو ٹکر مار گئے۔ نجانے اُنہوں نے شرارت سے مارا یا ظالموں کو کوئی دُشمنی تھی یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے لیکن نوجوان لڑکی اور اُسکے والدین کی سینکڑوں بد دُعائیں ہمیشہ کیلئے ساتھ لیتے گئے جو شاید اُنہیں پوری زندگی چین سے نہ بیٹھنے دیں۔ مریضہ کے والدین کہتے ہیں کہ ہم بچی کو شہر کے ایک بڑے سرکاری ہسپتال لے گئے۔ ڈاکٹر سے ملے تو وہ کہنے لگا کہ یہ سرکاری ہسپتال ہے۔ یہاں علاج کروایا تو ایک لمبا عرصہ لگ جائے گا۔ چند پیسوں کی بچت کی خاطر آپ کہاں اتنا انتظار کرتے رہیں گے؟ لہٰزا بہتر یہی ہے کہ شام کو میرے پرائیویٹ ہسپتال آجائیے، وہاں جلد آپریشن ہو جائے گا۔ یہ کہہ کر ڈاکٹر نے اپنا ویزیٹینگ کارڈ ہمارے ہاتھ میں تھمایا اور باقی مریضوں کی جانب بڑھ گیا۔
والدین کا کہنا ہے کہ بچی کا رشتہ بھی طہ پایا ہوا ہے۔ ہمیں اس بات کا ڈر تھا کہ اگر کسی سرکاری ہسپتال سے علاج کروایا اور خداناخواستہ کچھ دیر ہوگئی تو کہیں لڑکے والے رشتہ ہی نہ توڑ دیں۔ بس یہی سوچ کر ہم ڈاکٹر کے پرائیویٹ ہسپتال پہنچ گئے۔ ڈاکٹر نے آپریشن کیلئے ایک بڑی رقم کا مطالبہ کیا جسکا بندوبست کرنا ہمارے لئے نہایت مشکل امر تھا۔ خیر جس طریقے سے ہم نے ڈاکٹر کی فیس ادا کی یہ ہم ہی جانتے ہیں یا پھر ہمارا رب۔ ہسپتال سے ڈسچارج کرنے کے بعد بھی بچی کی تکلیف میں کوئی کمی نہ ہوئی۔ پہلے تو ہم سمجھے کہ شاید رفتہ رفتہ صحت بہتر ہو جائے گی لیکن تکلیف میں دن بدن اضافہ ہی ہوتا گیا لہٰذا ہم بچی کو  شہر کے ایک اور بڑے ہسپتال لے گئے جہاں کچھ ابتدائی علاج کرنے کے بعد ڈاکٹروں نے بتایا کہ بچی کی ٹانگ میں نقلی راڈ ڈالا گیا ہے لہذا دوبارہ آپریشن کر کے اُسکو نکال کر نیا راڈ ڈالا جائے گا۔
والدین کیلئے ایک تو بچی کا غم، دوسرا بچی کے رشتے کی فکر کہ کہیں وہ یہ نہ کہیں کہ فقط پیسے کی بچت کی خاطر دیر کر رہے ہیں۔ بس یہی سوچ کر پیسے کی فکر کئے بِنا جتنا جلد ممکن ہوسکے علاج کروانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں لیکن ایک متوسط خاندان کیلئے اتنی بڑی رقوم کا بندوبست کرنا کتنا آسان ہے؟ یہ ہم سب بخوبی جانتے ہیں۔

جب سے اس واقعہ کا علم ہوا، بار بار میرے ذہن میں وہ لمحات کسی ویڈیو کی طرح گردش کرنے لگ جاتے ہیں کہ لڑکی اپنے بیڈ پر لیٹی تکلیف سے بلبلا رہی ہے، ماں آنسو بہاتے ہوئے بچی کو تسلی دے رہی ہے اور باپ سخت پریشانی کے عالم میں ڈاکٹروں کے پیچھے بھاگ دوڑ رہا ہیں۔ پھر سوچتا ہوں اِس اسلامی جمہوریہ کے اِن درندہ صفت باشندوں کے بارے میں جو فقط اپنے پیٹ کے خداؤں کی بھوک کو مِٹانے کیلئے دوسروں کا گوشت بھی کھا جاتے ہیں اور اِنہیں خداؤں کی پیاس بُجھانے کیلئے ہر لمحہ دوسروں کا خون پینے کیلئے بھی تیار رہتے ہیں، پھر بھی نہایت پُر اُمید انداز میں اس مُلک پر چھائی گھٹا کے جلد ہی چھَٹ جانے کی پیشن گوئیاں کرتے ہیں۔
Powered by Blogger.
۔
Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...