باباجی

بابا جی نے ساری زندگی نہایت تکالیف و مصائب کا سامنا کرتے ہوئے گزاری۔ لیکن اب تقدیر مہرباں ہوئی اور باباجی کو ایک ریٹائرڈ کرنل سے ملاقات کا اتفاق ہوا۔ کرنل بھی ایسا کہ جسکو دیکھ کر ہم ہمیشہ بدگمانی کا شکار ہوئے جاتے اور کرنل اور مُملکتِ زرداریوں کی فوج کے درمیان موازنہ کرنے لگتے۔ آخر اس نتیجے پر پہنچتے کہ ہمارے دیس کی فوج تو قطعاً ایسی مہذب ہو نہیں سکتی، یقیناً یہ کرنل بگڑا ہوا ہے جس میں انسانیت اور شرافت ابھی بھی کافی حد تک رچ بس رہی ہے۔ خیر۔۔۔ باباجی نے کرنل کے عُہدے، جیب اور اُسکے اس بگڑے پن ہمارا مطلب ہے کہ شرافت سے بھرپور فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی۔ چند ملاقاتوں کے بعد باباجی نے کرنل کو اپنی ایک ٹھیکیدارانہ نوعیت کی کمپنی بنانے پر رضامند کر لیا۔ دونوں نے شراکت داری بھی ایسی کی، کہ جسکی سمجھ آج تک ہمارے اس ناقص دماغ میں نہیں آئی۔ آسان الفاظ میں بتائے دئیے دیتے ہیں کہ سرمایہ داری ساری کرنل کی اور منیجمنٹ باباجی کی۔
دراصل باباجی پیشے سے ایک ٹھیکیدار تھے لیکن اب کرنل سے ملاقات کے بعد اپنی ٹھیکیداری کو مُکمل بھُلا چُکے ہیں۔ کرنل نے دفتری اور قانونی کاغذوں میں اپنے آپکو مینیجنگ ڈائریکٹر (ایم۔ڈی) کہلوانا شروع کردیا، یہ دیکھا دیکھی باباجی کو بھی شے چڑی اور اُس دن کے بعد باباجی بھی کپمنی کے ڈائریکٹر ٹیکنیکل کہلوانے لگے۔ ٹھیکیداری کے دور میں باباجی کی کُل تعلیم فقط ایک ڈپلومہ تھا لیکن ڈائریکٹر ٹیکنیکل بننے کے بعد دفتری کاغذوں میں باباجی کے نام کے ساتھ مکینیکل انجینئیر لکھا جانے لگا۔ ٹھیکیداری کے دوران باباجی نے مُختلف ٹھیکیداروں کے جو جو بڑے بڑے قصے سُنے اب وہ تمام باباجی کی شخصیت کے ساتھ منسلک ہونے لگے۔ جی ہاں! دفتری عملہ ہو یا کسی محکمہ میں کوئی میٹینگ، اب باباجی کی ہر بات کا آغاز اپنے تجربات سے ہی ہونے لگا اور تجربات کی فہرست بھی ایسی کہ جو ختم ہونے کا نام ہی نہ لے۔ ہر ایسا منصوبہ جو انکے کسی جاننے والے یا کسی بڑے ٹھیکیدار نے مکمل کیا ہو اب وہ باباجی کا ہی کارنامہ کہلانے لگا۔
باباجی نے کُرسی پر تشریف رکھنے کے بعد ایک اچھے پاکستانی ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اپنے برابر کی کُرسی اپنے جانشین کیلئے مُختص فرما دی۔ جی ہاں اپنے شہزادہ کو اماں کی گود سے اُٹھوا کر دفتر میں بلوایا اور جناب کی کُرسی پر پراجیکٹ مینیجر کی تختی لگوا دی۔ ہم تو سوچتے ہیں کہ بچہ تو ہکا بکا رہ گیا ہوگا کہ ارے یہ ہمارے ساتھ ہوا کیا۔ ہم تو ابھی بھی جناب کو یاد کرتے ہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے گویا منہ میں چوسنی ڈالے پراجیکٹ مینیجر کمپنی کے تمام برتن توڑے جارہا ہے۔۔۔ ارے جی کمپنی کے برتن تو کمپنی کے معاملات ہی ہوتے ہیں نا۔۔۔ تو سمجھ ہی جائیے۔۔۔ خیر عملہ میں سے ہمارے اِک باہمت شیر نے پراجیکٹ مینیجر کی تعلیم پوچھنے کی جسارت کی تو معلوم ہوا کہ جناب ایک انجینئیر ہیں یہ علیحدہ بات ہے کہ بغل میں ڈگری نہیں۔۔۔ بقول جناب کے، یونیورسٹی کا (پی۔ای۔سی) پاکستان انجنئیرنگ کونسل سے کوئی لانجھا چل رہا ہے جسکی وجہ سے طلبہ کو ڈگری کے بغیر ہی فارغ کیا جا رہا ہے۔ ایسی بھی کوئی بات نہیں، ہمیں جناب کی زبان پر پورا بھروسہ ہے، کہہ رہے ہیں تو سچ ہی ہوگا۔ آخر ہوئے جو ایک مہذب پاکستانی، بھروسہ کر کے لِتّر کھانا ہماری ایک پُرانی عادت ہے۔  

(جلدی کا کام شیطان کا، لہٰذا انتظار فرمائیے۔ بقیہ حصہ جلد ہی شائع کر دیا جائے گا۔۔۔۔۔۔۔ )

ہمارا قصور

میں ٹیلیویژن آجکل بہت کم دیکھ پاتا ہوں۔ کوئی خاص خبر وغیرہ ہو تو انٹرنیٹ کی وساطت سے ہی تفصیلات جان لیا کرتا ہوں۔ آج بھی میں کسی کام سے گھر سے باہر گیا ہوا تھا، جوں ہی گھر میں داخل ہوا تو خبر ملی کہ اُسامہ بن لادن ایبٹ آباد میں امریکی آپریشن کے دوران ہلاک ہوگیا۔ اتنی بڑی خبر سُن کر میں نہ صرف ہکلا گیا بلکہ بہت سے سوالات بھی ذہن میں گردش کرنے لگے۔ ۔ ۔

اُسامہ بن لادن پاکستانی حدود میں ہلاک؟

امریکی فوج کا آپریشن؟

جس میں امریکی ہیلی کاپٹروں نے بھی حصہ لیا؟

وہ بھی ایبٹ آباد جیسے علاقہ میں؟  

انہی سوالات کے حصولِ جوابات کیلئے میں نے اپنا لیپ ٹاپ آن کیا اور نیٹ گردی شروع کردی۔ مُختلف ویب سائیٹس پر تفصیلات پڑھنے کے بعد بھی میرے دماغ کی اُلجھنیں وہیں گردش کر رہی تھیں۔ بالآخر مُجھے احساس ہوا کہ یہ سب ڈرامہ ہے جس میں حقیقت کا کوئی پہلو نہیں۔ جہاں تک بات ہے اُسامہ بن لادن کی اُس فوٹو کی جو میڈیا بار بار دِکھا رہا ہے تو اُسکی حقیقت فقط یہ ہے:

آپ فوٹوشاپ کی مدد سے کسی بھی تصویر کو کوئی بھی رُخ دے سکتے ہیں۔ یوں تو کوئی بھی بچہ کل کو اوبامہ کی یہ تصویر بھی دُنیا کے سامنے لا کر کہہ سکتا ہے کہ میں نے باراک اوبامہ کو ہلاک کر دیا۔ تصویر ملاحضہ کیجئیے:
انٹرنیٹ پر یوں ہی مُختلف خبریں اور تفصیلات پڑھتے پڑھتے میں یاہو کی ویب سائٹ پر ایک متعلقہ خبر تک پہنچا، اُسکی تفصیلات پڑھیں اور پڑھنے کے بعد نیچے کئے گئے تبصرے پڑھنے لگا۔ چند تبصرے پڑھے تو مزید تبصرے پڑھنے پر بھی مجبور ہوگیا۔ ایک صفحے پر موجود تمام تبصرے پڑھنے کے بعد جب اگلے صفحے کو کھولاتو تبصروں کی تعداد میں سینکڑوں گناہ اضافہ ہوچُکا تھا۔ میں جوں جوں اگلا صفحہ کھولتا گیا، تبصرے سینکڑوں کی تعداد میں بڑھتے گئے۔ نہ جانے وہ کس رفتار سے بڑھ رہے تھے مگر میں فقط یہ جانتا ہوں کہ پوری دُنیا سے لوگوں کی اِک کثیر تعداد وہاں بیک وقت تبصرے کئے جارہی تھی۔ انٹرنیٹ پر اس تلاش کے دوران کسی خبر یا کسی تحریر نے میرا اتنا وقت نہیں لیا جتنا کہ ان تبصروں نے۔ کسی خبر یا تحریر کے پڑھنے سے میرا لہو گرمایا نہ ہی میرے جزبات میں کوئی اضافہ ہوا مگر یہ تبصرے پڑھ کر مُجھے اپنی ایک پوسٹ ’’ریمنڈ کی رہائی پر تاثرات‘‘ میں ایک دوست کا وہ جملہ یاد آگیا جو اُسنے فیس بُک پر ریمنڈ ڈیویس کی رہائی کے موقع پر کہا تھا:

Ashamed.... I don't want to be a Pakistani any more

مزید کُچھ کہنے سے قبل میں آپکے سامنے انہی تبصروں کی کُچھ تصاویر پیش کررہا ہوں ۔ ۔ ۔







جی ہاں پوری دُنیا خصوصاً امریکی عوام کا بچہ بچہ مُجھے گالیاں دے رہا ہے۔ کیونکہ پاکستان کو ملنے والی ہر گالی مُجھے مل رہی ہے، آپ کو مل رہی ہے اور اس دیس کے ہر اُس بچے کو مل رہی ہے جسکا آج دنیا میں روزِ اوّل ہے اور ہر اُس ضعیف العمر شخص کو مل رہی ہے جو آج اس دُنیائے فانی میں اپنی زندگی کے آفتاب کو غروب ہوتا ہوا دیکھ رہا ہے۔ میرے خیال سے مُجھے یہ بتانے کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں کہ ہمارا قصور کیا ہے۔ ۔ ۔
Powered by Blogger.
۔
Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...