ہم شہر کی ایک مصروف ترین شاہراہ پر سفر کررہے تھے۔۔۔ خوش گوار موسم سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ خوش گپیوں میں بھی مصروف تھے۔۔۔ اتنے میں ہم ایک چوک پر پہنچے۔۔۔ یہاں ٹریفک صبح شام چاروں جانب سے رواں دواں رہتی ہے۔۔۔ سرخ بتی بھی ہمارا ہی انتظار کر رہی تھی۔۔۔ ابھی زیبرا کراسنگ سے چند فُٹ کے فاصلے پر تھے کہ بتی محترمہ روشن ہوگئیں۔۔۔ تمام گاڑیاں رُک گئی۔۔۔ مگر میں جن محترم کے ساتھ سفر کر رہا تھا‘ اُنہوں نے دائیں بائیں دیکھا اور چل پڑے۔۔۔ میں نے اُنکے اس عمل پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے نہ رُکنے کی وجہ پوچھی۔۔۔ اِس سے پہلے کہ میں مزید کچھ کہتا‘ اُنہوں نے میری طرف دیکھا اورسنجیدگی سے کہنے لگے:
’’اقبال نے فرمایا تھا:
جس کھیت سے دہکاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂِ گندم کو جلا دو‘‘
لیکن اقبال نے یہ شعر ٹریفک اشارہ توڑنے کے بعد نہیں کہا تھا
ReplyDeleteآپ کو سختی کے ساتھ منع کیا جاتا ھے۔
ReplyDeleteکہ آئیندہ آپ ان صاحب کی گدھا گاڑی پر مت بیٹھیں۔
اگر یہ صاحب آپ کے قریبی نہیں ہیں تو ان
سے سو گز کا فاصلہ رکھیں۔
نہیں تو آپ پر گدھا گاڑی کے مہلک اثرات ہو نا شروع ہو جائیں گے۔
ہماری قوم کو عری زبان بہ مشکل لگتی ہے ۔ انگريزی بولنے کا بڑا ثاؤ ہوتا ہے مگر ايک صفح درست نہيں لکھ سکتے ۔ اور سب سے بڑی بات کہ اردو بھی نہيں سمجھ پاتے جو کہ قومی زبان ہونے کے علوہ کراچی والوں کی ملکيت بھی ہے
ReplyDeleteاچھا، اقبال نے ایسا فرمایا تھا۔۔۔۔۔ تو پھر صحیح ہی کہا ہو گا۔۔۔
ReplyDeleteجلا دو!۔
امتیاز بھیا:: ضروری نہیں کہ شاعر جس موقع پر شعر کہے پھر اُسے موقع پر اُس شعر کو استعمال کیا جائے۔۔۔
ReplyDeleteیاسر بھیا:: یہ صاحب میرے قریبی ہیں۔
عین لام میم:: عمیر بھیا ہاں یہ تو ہے۔۔۔ اقبال سہی ہی فرماتے تھے۔ بہت عظیم شاعر تھے۔
یار میں کیا جلاوٌں۔۔ حکومت نے تو ہمیں ہی جلا دیا ہے۔۔۔
افتخار اجمل بھوپال صاحب !
ReplyDeleteپہلی بار سن رہا ہوں کی زبان بھی کسی کی ملکیت ہو سکتی ہے۔ قومی زبان ، علاقائی زبان ہی سنتے آرہے ہیں آجتک
علامہ کا شعر یقینا اس موقع کے لئے نہیں ہوگا۔
ہاں یہ شعر تو نہ جانے کس موقع پر اقبال نے کہا ہوگا لیکن اگر اسی طرح ہمارے ملک میں نوجوان ہاتھ میں ڈگریاں اُٹھائے بیروزگار پھرتے رہے‘ لوگ بھوکے مرتے رہے‘ مہنگائی‘ زخیرہ اندوزی‘ لوڈ شینڈنگ کا خاتمہ نہ ہوا تو وہ وقت دور نہیں جب یہ ملک جل جائے گا۔ اور یہ شعر بہت سے لوگوں کی زبان پر ہوگا
ReplyDeleteیار اشارہ توڑنے اور اس شعر میں کیا تعلق ہے؟؟؟
ReplyDeleteارے جعفر اُستاد آپکو بھی سمجھانا پڑے گا؟ یہ تعلق تو آپنے سمجھنا ہے۔
ReplyDeleteجو شخص اوپر والے تبصرے میں بتائے گئے مسائل سے تنگ آیا ہوگا‘ وہ کیسے اپنے مُلک سے محبت کرسکتا ہے؟ یہ حالات اُسے باغی بنائیں گے۔ وہ بم اپنے جسم کے ساتھ باندھ کر اپنے ساتھ باقیوں کو بھی مارنے کا حوصلہ رکھ سکتا ہے۔ اُسکے دِل میں اب کسی قانون کیلئے کوئی اہمیت نہیں ہوگی۔
پاء جی نا جی نا اقبال کا مشہور تو یہ ھے ،،
ReplyDeleteسارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا
ھم اس کی بُلبل ھے یہ نشیمن ہمارا ،،،
http://www.balochwarna.com/modules/news2/
ReplyDeleteاس پوسٹ کے ساتھ یہ شعر کیوں اور کیسے فِٹ ہے :?
ReplyDeleteعجیب بات ہے کہ آج اتنی آسان سی بات آپ سب کی سمجھ میں نجانے کیوں نہیں آرہی؟ اُن محترم نے جنہوں نے اِس موقع پر یہ شعر کہا‘ اُنکے مطابق اِس شعر میں کھیت سے مراد پاکستان اور دہکاں سے مراد عوام ہے۔ یعنی اُنکے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ جب ہمیں پاکستان نے کچھ نہیں دیا تو ہمارے نزدیک اِسکے قوانین کی کوئی قدروقیمت نہیں۔ اِس سے اُنکی اِس حد تک مایوسی نظر آتی ہے کہ اب اُنکے دِل میں مُلک کی کوئی محبت باقی نہیں رہی۔
ReplyDeleteحجاب شب:: آپکا بلاگ وزٹ کیا۔ روابط میں اپنا نام دیکھ کر خوشی ہوئی۔ شکریہ