یحیٰ کے والد ائیر فورس سے ریٹائیرڈ ہیں اور محلے کی مین سٹریٹ میں دو دوکانوں کے مالک بھی ہیں۔ ماہانہ پینشن اور دوکانوں کا کرایہ ہی انکی کُل آمدنی ہے جسکی مدد سے وہ نہ صرف سفید پوشی سے زندگی بسر کر رہے ہیں بلکہ اپنے بچوں کو بہترین تعلیم دلوا کر اپنا فرض احسن طریقے سے سرانجام دے رہے ہیں۔ وہ پانچ وقت کے نمازی اور نہایت نیک انسان ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یحیٰ بھی اِک خوش مزاج‘ نیک سیرت اور نہایت اچھے اخلاق کا نوجوان ہے۔
یحیٰ کے والدین اپنے بیٹے سے بے حد پیار کرتے ہیں کیونکہ اللہ تعالی نے چھ بیٹیوں کے بعد اُنکو ایک بیٹے کی خوشی سے نوازا۔ اُسکی حیثیت اِن چھ بہنوں کے درمیان ایک چمکتے دمکتے چاند کی سی ہے۔ جسکی چاندنی اور ٹھنڈک میں وہ پورا گھرانہ ہنستا مسکراتا زندگی بسر کر رہا ہے۔ یحیٰ کے والدین کی پوری کوشش ہے کہ یحیٰ پڑھ لکھ کر کچھ بن جائے تاکہ وہ نہ صرف بڑھاپے میں اُنکے سہارے کا ذریعہ بن سکے بلکہ معاشرے میں اُنکو بھی عزت سے سر بلند کرنے کا موقع مل سکے۔ غرض یحیٰ کے والدین کی تمام تر اُمیدوں کا مرکز اور اُنکی خوشیوں کا باعث تنِ تنہا یحیٰ ہے۔
----------------------------------------
دفتر سے گھر لوٹا تو چھوٹے بھائی نے نہایت جلدی میں سلام کیا۔ ابھی میں سلام کا جواب بھی نہ دے پایا تھا کہ کہنے لگا: ’’بھائی آپکو علم ہوا؟ وِو۔۔ وو۔۔۔ وہ۔۔۔‘‘ بھائی کی اس حد تک ہچکچاہٹ اور گبراہٹ دیکھ کر اندازہ ہوگیا کہ ضرور کوئی نہایت اہم بات پیش آئی ہے۔ ابھی میں مزید کچھ کہنے ہی والا تھا کہ وہ بول پڑا: ’’وہ یی۔۔۔یی۔۔ یحیٰ کا ایکسیڈنٹ ہوگیا۔‘‘
یحیٰ موٹرسائیکل پر سوار یونیورسٹی جا رہا تھا کہ راستے میں اُسکا ایک پِک اَپ سے ایکسیڈینٹ ہوگیا۔ پِک اَپ کے ڈرائیور نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور فوراً جائے وقوعہ سے غائب ہوگیا لیکن اُسے کیا معلوم کہ وہ جاتے ہوئے نہ صرف ایک ہنستے مسکراتے گھرانے کی مسکراہٹوں اور خوشیوں کو لوٹ گیا بلکہ چھ بہنوں کے اکلوتے بھائی، بوڑھے والدین کے تنِ تنہا سہارے، یحیٰ کو ایک ٹانگ سے محروم کر گیا۔۔۔۔
یحیٰ کے گھر عیادت کیلئے گیا تو اُسکے والد کے چہرے کو پہلی مرتبہ اتنا بُجھا ہوا پایا۔ انکل نے بتایا کہ ڈاکٹروں نے معمولی علاج کے بعد یحیٰ کو گھر بھجوا دیا۔ بےحد اصرار پر بھی وہ یحیٰ کو ہسپتال میں ایڈمٹ نہیں کر رہے۔ پورا دن بچے کو تڑپتا چھوڑ کر ہسپتال میں بھاگتا دوڑتا رہا کہ شائید کوئی سُن لے لیکن اُن کے کان پر تو جوں تک نہیں رینگتی۔ اگر یحیٰ کا آپریشن وقت پر نہ ہوا تو۔۔۔۔ یہ کہہ کر انکل نے سر جھُکا لیا اور اپنے آنسو پونجھنے لگے۔ میں نے آج سے پہلے اُنکو اتنا مایوس اور اُداس کبھی نہیں دیکھا تھا۔ چند لمحوں کے بعد انکل نے سر اوپر اُٹھایا اور کہنے لگے: ’’اب سوچ رہا ہوں کہ کوئی سفارش ڈھونڈوں تاکہ وہ لوگ میرے بچے کو ایڈمٹ کر لیں۔ میری نہیں سنتے کسی بڑے آدمی کی تو سُن لیں گے نا۔‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ لیا اور جھکے سر کے ساتھ زمین کو گھور گھور کر دیکھنے لگے۔
بس افسوس ہی کرسکتےہیں کیونکہ سفارش اوررشوت کلچرکچھ اسطرح ہماری زندگیوں میں داخل ہوگیاہےکہ اللہ کی پناہ جب تک کسی پرخودمصیبت نہیں پڑتی تووہ اس صورتحال کوصحیح طریقےسےنہیں سمجھ سکتا۔ اللہ تعالی ہم کودین اسلام کےسنہری اصولوں پرکاربندہونےکی ہمت و حوصلہ عطاء فرمائے۔ آمین ثم آمین
ReplyDeleteپہلے سوچا کے کمنٹ کر دوں ۔۔۔۔ پھر خیال آیا کہ آپکا بلاگ الفاظات کی تاب نہیں لا سکے گا اس لئے میں یہاں صرف افسوس کر ستکا ہوں
ReplyDelete:(
ReplyDeleteافسوس ہی کر سکتے ہیں۔
ReplyDeleteعلاج معالجے کیلئے بھی سفارش کروانے کا دور آگیا ھے۔
اللہ سے بہتری کی امید کرتے ہیں۔
اللہ رحم کرے۔آمین
طب کا پیشہ ہمشہ سے ہی مقدس سمجھا جاتا ہے مگر آج اس پروفیشن سے وابستہ لوگوں کے رویئے سے آپ انداذہ لگا سکتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ کتنا بے حس اور خود غرض ہوگیا ہے ۔یہ صرف یحیی کا مسلہ نہیں بلکہ ان گنت ایسے لوگ ہیں
ReplyDeleteاسلام نے جن پیشوں کو للہی کہا اور انہیں عبادت قرار دیا آج وہ ذلیل ترین سمجھے جوتے ہیں اور ان سے نفرت معاشرے میں عام ہے ۔ صرف اس لیے کہ انہیں پیسے بنانے کا ذریعہ سمجھ لیا گیا ہے طب بھی انہیں میں ایک ہے ۔ اللہ آپ کے دوست کے ساتھ خیر کا معاملہ فرمائے
ReplyDeleteجاوید بھیا:: آمین
ReplyDeleteضیاء بھیا:: ایسے کونسے الفاظ ہیں؟ کر دیا کریں کمنٹ۔ اللہ نہ کرے کوئی ایسی ویسی بات ہو ورنہ ڈیلیٹنے کا حق تو ہمیں ہے ہی۔
یاسر بھیا:: آمین
نغمہ سحر:: بلکل ایسی ہی بات ہے۔
عرفان عادل بھیا:: بلاگ پر خوش آمدید۔ آمین
ہر انسان اپنی حد تک تو سدھار پیدا کرسکتا ہے۔ اگر کہیں ہم رشوت دیتے یا سورس لگواتے ہیں تو کہیں ہم بھی رشوت وصول یا حق دار کا حق ماررہے ہوتے ہیں
ReplyDeleteاگر اس کے والد ایئر فورس سے ریٹائرڈ ہیں تو وہ اپنے بچے کا علاج فوج کے ہاسپٹل میں کیوں نہیں کروارہے؟
ReplyDeleteوہاں تو بہت اچھا علاج ہوتا ہے
ہاشم بھیا:: بلکل دُرست لیکن کیا یحیٰ کے ابو کو سفارش نہیں کروانی چاہئیے تھی؟
ReplyDeleteعبدللہ:: ریٹائرڈ حضرات کو صرف نابالغ بچوں کے علاج معالجے کی سہولت میسر ہے جبکہ یحیٰ بالغ ہے۔ انہوں نے یحیٰ کا آپریشن پرائیویٹ کروایا ہے ورنہ ضرور کسی فوجی ہسپتال سے کرواتے۔
Haq ya Farz!
ReplyDeleteIt truly is a dilemma! Any thoughts about how things can be improved?
BTW, Howz Yahya now?
really a tragic dilemma.. is it a true story ... if its yes... thn thts a real shame :(
ReplyDeleteخاور بھیا:: بلاگ پر خوش آمدید۔ ہمیں پہلے اپنی انفرادی طور پر اصلاح کرنی چاہئیے۔ پھر ہی یہ معاشرہ ٹھیک ہو سکتا ہے۔ یحیٰ کے بارے میں بہت جلد آپکو بتاوں گا۔
ReplyDeleteعاتقہ آپی:: آپی یہ کوئی کہانی نہیں۔ یحیٰ میرا رشتہ دار ہے اور پڑوسی بھی۔
عجیب ہی ہے ، کیا کہوں ،،،،۔
ReplyDeleteسلام
ReplyDeleteمیرے کچھ نہایت معزز دوستوں کے بقول
بس افسوس ہی کرسکتےہیں
غلط جناب صرف افسوس کب تک کریں گے بدلو اس کلچر کو یہ کلچر ہمارا اپنا بنایا ہوا ہے ہم سب کی غلطیاں
کُچھ تحاریر غلطی سے دوبارہ شائع ہوگئیں ہیں جسکیلئے میں معذرت خواہ ہوں۔
ReplyDeleteانکل ٹام @ میرے پاس بھی اکثر کُچھ کہنے کو نہیں ہوتا۔۔۔ اور اکثر تو ایسے ہی کسی موضوع پر لکھتا ہوں جس پر کہنے کو نہ ہو
وسیم بیگ @ وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ۔ سب سے پہلے تو بلاگ پر خوش آمدید اور تبصرہ کرنے کا شکریہ۔ آپکی رائے کی قدر کرتا ہوں۔
الحمدُللہ یحیٰ مکمل علاج کے بعد اب بالکل صحت مند ہے اور احسن زندگی گزار رہا ہے!
ReplyDelete