نوجوان نے جو باتیں کیں وہ مجھے آج بھی ایسے ہی یاد ہیں گویا کہ ابھی چند لمحوں پہلے کی بات ہو۔ اُسکی بے چینی‘ بولنے کا انداز اور بات کی مناسبت سے آواز کا اُتراؤ چڑھاؤ غرض سب کچھ اچھی طرح یاد ہے۔ نہ جانے کیوں اُسکی زبان سے نکلا ہوا ہر اِک لفظ میرے دماغ سے نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہا ؟؟؟ آئیے نوجوان کی زبانی سُنئیے:
’’ نماز کی عادت تو بچپن سے ہی تھوڑی بہت تھی۔ بلوغت کی عُمر کو پہنچھا تو ﷲ نےمجھ پر یہ احسان کیا کہ ایک عالم کی وساطت سے اسلام کا کچھ علم دیا۔ میں اکثر اِن عالم کو سُننے لگا۔ جب فارغ ہوتا تو گھر بیٹھے اُنکے نصیحت آموز بیانات سُن لیتا جس سے میرے ایمانی درجہ میں دِن بدِن اضافہ ہونے لگا۔
میں بچپن سے ہی بہت حساس‘ نازک اور کمزور دل کا مالک تھا بلکہ ہوں۔ ہر چھوٹی موٹی بات سے ڈر جانا اور چھوٹی چھوٹی باتوں کا نہایت بڑا اثر لینا اب میرے اور میرے گھر والوں کے لئے کوئی بڑی بات نہیں۔ آج اِسی نازک اور حساس لڑکے کو جب ﷲ اور ﷲ کے عزاب سے ڈرایا گیا تو یہ کیوں نہ ڈرتا۔ سو کافی مرتبہ اُن عالم کو سُننے کے بعد میں نے یہ فیصلہ کیا کہ میں اپنی باقی کی زندگی اِنشاءﷲ‘ اسلام کے دئیے ہوئے احکامات کے مطابق گزاروں گا۔ یہ فیصلہ کرنا کوئی مُشکل کام نہ تھا بلکہ افسوس اس بات کا ہے کہ دورِحاضر کے باقی مسلمانوں کی طرح میرے لئے بھی اس فیصلے پر پورا اُترنا کافی مُشکل اَمر ہے۔
روزمرہ کی زندگی میں ہمیں بہت سے ایسے لمحات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو انسان کیلئے جنت کی راہیں ہموار کرتے ہیں یا پھر جہنم کی۔ دن کی پانچ نمازوں کا ادا کرنا نہ کرنا ‘ رشوت اور سود کا لین دین یا ان سے اجتناب ‘ جھوٹ بولنا یا سچ غرض اسلام کے تمام احکمات پر عمل کرنا نہ کرنا ایسے لمحات کی چند مثالیں ہیں۔ ( اِسکی ایک تازہ مثال فیس بُک کا تنازع ہے جو (استغفرﷲ) بہت سے لوگوں کے نزدیک کوئی تنازع نہیں۔) اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے لمحات میں اکثر جیت شیطان کی ہی ہوتی ہے لیکن پھر بھی میری کوشش اپنے لئے جنت کی راہیں ہموار کرنے کی ہے۔ ہم نے تو وہی کرنا ہے جو ہمارے بَس میں ہے‘ آگے جو ﷲ کو منظور۔ ۔ ۔‘‘
نوجوان جو کرسی کا سہارا لئے بیٹھا تھا‘ اب سہارہ چھوڑتے ہوئے‘ کروٹ بدل کر میری طرف مخاطب ہوا گویا اب وہ میری زیادہ توجہ چاہتا تھا۔ اُسکے ماتھے پر اِک عجیب بےچینی کے آثار تھے۔
’’ بھیا ! ابھی حال ہی میں میرے بھائی کا رشتہ طہ ہوا ہے اور گھر میں اکثر اسی کا زکر چلتا رہتا ہے۔ اکثر شادی میں کی جانے والی رسومات کا زکر کرنے پر میں اُنکو سمجھانےکی کوشش کرتا ہوں کہ یہ سب تو ہندُوانہ رسومات ہیں اور اسلام میں انکا کوئی تصور نہیں۔ مگر اسکے جواب میں مجھے جو سُننے کو ملتا ہے وہ نہ صرف نہاٰیت دُکھ دہ ہوتا ہے بلکہ ایک انسان کا دِل توڑنے کے لئے کافی ہے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ میں گھر میں داخل ہوا تو اِیک نئی بات سُننے کو ملی۔ سب بھائی کی منگنی کا پروگرام بنا رہے تھے۔ مجھے یہ سب سن کر سخت افسوس ہوا اور بالآخر میں بول پڑا کہ اسلام نے ہمیں نکاہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ اسلام میں منگنی کا کوئی تصور نہیں۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی ویسا ہی جواب ملا کہ ہاں بابا! ہر بات میں تمہارے نت نئے قانون نکل آتے ہیں۔ ہمارے آباؤاجداد یہی سب کچھ کرتے آرہے ہیں اور وہ ھم سے زیادہ جانتے تھے اسلام کے بارے میں۔ ۔ ۔
بھیا ! اب آپ ہی بتائیں کہ میں انکو کیسے سمجھاؤں کہ یہ قانون میرے نہیں اسلام کے ہیں۔ کیا میرا اور انکا اسلام ایک ہی نہیں ؟؟؟ یا میرے اور انکے اسلام میں کوئی (نعوزُباﷲ) فرق ہے کیا ؟؟؟ بولیں نا بھیا !!! ‘‘
نوجوان کی آنکھیں نم تھیں اور اب وہ میرے جواب کا منتظر تھا مگر اُس کی اُمید کے برعکس میں بلکل خاموش تھا۔ کمرہ میں ایک لمحہ کیلئے مکمل سُناٹا چھا گیا۔ میری طرف سے کوئی جواب نہ پا کر اُسنے دوبارہ کرسی سے سہارہ لیا۔ اب وہ کافی پرسکون اور پُرعزم لگ رہا تھا۔ نوجوان نے اِک لمبی آہ بھری اور بولا:
’’ میرے نبیﷺ کی ہر بات بھی تو سچی ہے۔ ۔ ۔ آپﷺ نے فرمایا تھا (جسکا مفہوم ہے) کہ ایک دِن آئے گا جب میرا لایا ہوا دین اجنبی ہو جائے گا۔ ۔ ۔ لیکن آپ نے یہ بھی فرمایا تھا (جسکا مفہوم ہے) کہ اُس وقت جو میری ایک سنت کو زندہ کرے گا اُسکو سَتّر(70) شہیدوں کے برابر اَجر ملے گا۔ آپﷺ کی ایک اور حدیث کا مفہوم ہے کہ’’ جب بُرائی کو ہوتا ہوا دیکھو تو اُسکو ہاتھ سے روکو ‘ اگر اتنا ایمان نہ ہو تو زبان سے بُرا کہو اور اگر اتنا بھی ایمان نہیں تو دِل میں ہی بُرا سمجھو‘‘۔ ۔ ۔ خیر ہم بھی کسی نہ کسی درجے میں آ ہی جائینگے۔‘‘
یہ کہہ کر نوجوان اُٹھا اور چل دیا۔ میری نظریں اُسکے اُٹھتے قدموں پر جمی ہوئی تھیں اور دماغ ان سوچوں میں گُم تھا کہ جسکو نوجوان اپنا محسن اور بڑا سمجھ کر آیا تھا‘ وہ تو خود اسکا شاگرد نکلا کیونکہ آج جو سبق اس نوجوان نے مجھے سکھایا ‘ وہ شاید ہی کوئی اور سِکھا سکے۔
buhhttttttttttt zada acha lihkha aur parhany say esa laga kay kisi bary adeebe ka lihkha wa parahe rahy hain.lihkhnay ka style buhte acha hai keep it up
nice article... buhat khoob :):) Keep the good work :)
ReplyDeletebuhhttttttttttt zada acha lihkha aur parhany say esa laga kay kisi bary adeebe ka lihkha wa parahe rahy hain.lihkhnay ka style buhte acha hai keep it up
ReplyDeleteye dost or anonymous hain kon???
ReplyDeleteyar apna naam to likh dia kero.. thnx for appreciating... this was my first try... remember me in ur prayers...
dost ka to pata chle giya na abe anonymous ka pata kro muhjy bi batna
ReplyDeletenice article but u should give right way and suggestions. Thank you Jazakallah
ReplyDeleteHashim Arif
Thnx hashim bhai! thnx a lot for ur comment, advice & ur precious time...
ReplyDeleteReally good and so nice Keep writing
ReplyDeletephhli try hay but boht achi kosish hy likhty raho.
future writer...:-)
ReplyDeletehope we got more to read like this....
سارہ آپی اور علشبہ کمنٹ کر کے حوصلہ افزائی کرنے کا بہت بہت شکریہ۔ مستقبل میں بھی اِس بلاگ کو وزٹ کرتے رہیئے گا۔
ReplyDeleteI really like this...... Keep up the gud wrk Adil!!!!!!! :)
ReplyDeletegood phli try nai lagti acha hai keep it up
ReplyDeleteaur temp bi blog ka buhte zada acha hai
Atika api and Rida:: Thnx a lot for appreciating. keep visiting the blog in future too
ReplyDeleteیہی تومسئلہ بن چکاہےدراصل ہم نےاپنی رسومات کواس طرح اپنےاوپرحاوی کرلیاہےکہ اگرکوئی ان کےخلاف کوئی بات کرےتومشکل ہوجاتی ہے
ReplyDeleteجی بلکل :( کوئی انکے خلاف بات کیوں کرے؟ کیا ہمارا اپنا دماغ نہیں؟
ReplyDeleteExcellent......hay 1st try but lagta nai...very nice:)
ReplyDelete