میں کسی جماعت کا سپورٹر ہوں نہ ہی سیاست میں کوئی خاص دلچسپی۔
حقیقت بتاؤں تو میں اُن لوگوں میں سے تھا جنکے مطابق پاکستانی سیاست میں ایک
آدمی بھی اقتدار کے قائل نہیں۔ سب غدار، مُلک دُشمن، عوام دُشمن، فرعون، جاگیردار،
ان پڑھ اور نا اہل ہیں۔ بلاشبہ اِس میں بہت حد تک حقیقت بھی ہے۔ لیکن وقت کے ساتھ
ساتھ احساس ہوا کہ ووٹ دینا ہماری اہم ذمہ داری ہے۔ اِسکی حیثیت امانت کی سی ہے
جسکو جلد از جلد اور ایمانتدار سے لُٹا دینا چاہئیے۔ لہٰذا فیصلہ کیا کہ جو کم
درجے کا نا اہل ہو اُسکو ووٹ دی جائے۔ ایسے میں مختلف وجوہات کی بناء پر مختلف
پارٹیاں اور نام سامنے آئے۔ بالآخر ن لیگ کو ووٹ دینے کا ارادہ کیا لیکن الیکشن سے
کچھ دن قبل ہی چند بناء پر عمران خان کو ووٹ کے قابل سمجھا۔ مُجھے یقین تھا عمران
خان تیس سے
زیادہ سیٹیں نہیں جیت سکتا اور خواہش تھی کہ عمران خان ایک اچھی اپوزیشن بنائے
کیونکہ سیاست میں اپوزیشن کا نہایت اہم کردار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عموماً عوام
کے بیشتر اہم مسائل اپوزیشن کی وجہ سے ہی حل ہوا کرتے ہیں۔
الیکشن کے دِن اپنے آبائی گاؤں میں جو مناظر میں نے
دیکھے، وہ تاحال تصورات سے اوجھل ہونے کا نام نہیں لیتے۔ سُنسان گلیوں اور روڈوں
پر نوجوانوں اور گاڑیوں کا رش، ہر جانب شور، ہلہ گلہ اور رونق، یوں محسوس ہورہا
تھا گویا عید ہو۔ میں نے آج تک اپنے گاؤں میں عید پر بھی اتنے نوجوانوں کو نہیں دیکھا،
نہ ہی اِس جوش و جذبے کے ساتھ جس طرح الیکشن کے دِن۔۔۔ وہ مناظر بھُلائے نہیں بھولتے۔
حیران کن طور پر پی ٹی آئی کے ووٹروں کی تعداد اندازے کے مطابق نوے فیصد تک تھی اور
جو لوگ ہمیشہ سے پی پی یا مسلم لیگ کے جیالے رہے، وہ سب بھی پی ٹی آئی کو سپورٹ کرتے
نظر آئے۔ حتٰی کہ مُلک کے دور دراز علاقوں سے اُن نوجوانوں کو فقط ووٹ ڈالنے کیلئے
گاؤں آتے دیکھا جو اب کسی خوشی، غمی اور عید پر بھی نہیں آیا کرتے۔ اور تو اور پہلی
مرتبہ دیکھا کہ نوجوان بیرون ملک سے فقط ووٹ ڈالنے آئے۔ جی ہاں، ایسے نوجوان جو
دُنیا بھر سے فقط کچھ دِن کیلئے ووٹ دینے پاکستان آئے اور حیران تو تب ہوا جب
معلوم ہوا ایک نوجوان فقط دُبئی سے ووٹ ڈالنے آیا اور رات کو ہی واپس روانہ
ہوگیا۔ اِس سب کو دیکھ کر میرے ذہن سے عمران اور فقط تیس سیٹوں والا خیال نکل گیا۔
بعد ازاں شام کے وقت پنجاب کے مختلف علاقوں میں رہنے
والے اپنے عزیز و اقارب سے وہاں کے حالات پوچھے تو تقریباً سب نے پیشن گوئی کی کہ پی
ٹی آئی ہمارے پولنگ سٹیشن میں جیتے گی۔ ابتدائی نتائج کے مطابق، پی ٹی آئی کو بیشتر حلقوں میں واضح اکثریت
حاصل تھی اور تو اور پنجاب کے چند نہایت ہی اہم حلقوں میں بھی پی ٹی آئی کی اکثریت
تھی لیکن رات گئے اچانک نتائج تبدیل ہونے لگے۔ حیرانگی کی انتہا نہ رہی جب علم ہوا
کہ میرے اپنے پولنگ سٹیشن میں بھی ن لیگ پہلے، پی پی دوسرے اور پی ٹی آئی تیسرے نمبر
پر رہی جو وہاں ووٹ ڈالنے والے کسی شخص، حتٰی کہ باقی جماعتوں کے ووٹروں کیلئے بھی
قطعاً قابل قبول نہیں۔ پھر اُسکے بعد دھاندلی کے متعلق موقع پر موجود بیشمار افراد
کے بیانات اور ایک دو نہیں، ان گنت ویڈیوز اور تصاویر سامنے آنے کے بعد کچھ بھی چھُپا
نہیں رہا۔۔
کسی جماعت کے سپورٹر سے بالا تر ہوکر دیکھا جائے تو بلاشبہ
دھاندلی ہوئی اور کسی ایک حلقے میں نہیں، بہت بڑے پیمانے پر ہوئی۔ کراچی میں جو
ہوا، اُس پر افسوس اور تجزئیے کیلئے تو الفاظ بھی کم پڑتے ہیں۔ دِل خون کے آنسو
روتا ہے لیکن وہاں تو ہمیشہ ہی ایسا ہوا کرتا ہے، لوگوں کو پہلے سے ہی یہی اُمید
تھی اور دُنیا حقیقت جانتی ہے اور مانتی ہے کہ سندھ خصوصاً کراچی میں دھاندلی ہوئی
اور کس دہشتگرد، درندہ صفت اور مُلک دُشمن پارٹی نے کروائی۔ لیکن جو کچھ پنجاب اور
دیگر علاقوں میں ہوا وہ نہایت افسوسناک اور شرمناک ہے۔ مُجھے یہ دُکھ قطعاً نہیں کی
پی ٹی آئی یا کوئی خاص جماعت نہیں جیتی بلکہ دُکھ اِس بات کا ہے کہ الیکشن کے دُرست
نتائج سامنے نہیں آئے۔ پی ٹی آئی اِس سے بھی بُری طرح ہارتی لیکن دھاندلی کے بغیر
ہارتی تو کچھ افسوس نہ تھا۔
اِن الیکشن میں جوانوں کے جوش و جزبے، اُنکی سیاست میں
دلچسپی، مُلک میں مثبت تبدیلی کی خواہش اور جستجو کو دیکھ کر میں بذاتِ خود
نوجوانوں سے شرمندگی محسوس کرتا ہوں۔ جو حوصلہ شکنی اِن الیکشن کے نتائج نے عوام
خصوصاً خواتین اور نوجوانوں کی کی، شائید اب اُسکا ازالہ کبھی نہ ہوسکے۔ اور تو اور
بیشمار نوجوانوں کو یہ سُنتے دیکھ کر میں کیا محسوس کرتا ہوں، وہ بیان کرنے سے
قاصر ہوں کہ ’’یہ ہمارا زندگی کا پہلا اور آخری ووٹ تھا‘‘۔ بیشتر تو مکمل طور پر
ہمت ہار گئے اور بقول اُنکے اب پاکستان کا نظام کبھی نہیں بدل سکتا۔ یہ
جاگیردارانہ اور گندہ نظام ایسے ہی تھا اور ایسا ہی رہے گا۔ ہمارے چاہنے نہ چاہنے،
ووٹ دینے نہ دینے سے کبھی کوئی اقتدار میں نہیں آسکتا۔ بلکہ ایک بزرگ تو کہنے لگے
کہ بیٹا آپ نے تو ابھی دیکھا، یہاں ہمیشہ سے ہماری توقعات اور سوچ سے بالکل
مختلف نتائج سامنے آتے ہیں۔ یہ سب کچھ پہلے سے ہی طے شدہ ہوتا ہے کہ کس کو جتوانا
ہے اور کیسے اگلے چند سال گزارنے ہیں۔
قصہ مختصر یہاں عوام کا نہیں، کسی اور کا مینڈیٹ چلتا ہے
اور وہ کون ہے، اِس میں مختلف قیاس آرئیاں ہیں، لہٰذا کچھ کہہ نہیں سکتا۔ فقط یہ کہوں
گا جو بھی ہے، وہ ملک دُشمن اور غدار ہے، چاہے وہ کوئی پارٹی ہے، ایجنسیاں ہیں، غیر
مُلکی ہاتھ، میڈیا یا سسٹم کی خرابی ہے۔۔۔۔ آپ سب کو ماننا پڑے گا، جی ہاں ماننا پڑے
گا کہ الیکشن بالکل بھی شفاف نہ تھے اور عوام کا مینڈیٹ بالکل بھی سامنے نہیں آیا۔
:(
عمران خان
سے بیشتر اختلافات کے باوجود، دوسری اہم بات جو ہم سب کو ماننا پڑے گی وہ
یہ کہ عمران خان نے عوام خصوصاً خواتین اور نوجوانوں کو گھروں سے باہر
نکلنے، سیاست میں دلچسپی لینے اور مُلک کی مثبت تبدیلی کیلئے جستجو کرنے کی
نئی راہ روشن کی۔ اور اب ضرورت اِس امر کی ہے کہ پارٹیوں، لیگوں اور
تحریکوں کے جال سے خود کو آزاد کر کے، ایک دوسرے پر تنقید کا دامن چھوڑتے
ہوئے، پوری قوم یکجا ہو جائے اور فقط بحیثیت پاکستانی، سب سے پہلے کراچی کو
پُرامن بنانے کی جستجو کی جائے۔ مُجھے اُمید ہے کہ میڈیا اور سوشل نیٹ
ورکس جیسے اہم ذرائع تمام نوجوانوں اور قوم کو یکجا کرنے میں اہم کردار ادا
کر سکتے ہیں۔ اور اگر قوم یکجا ہوجائے تو نہ صرف ہم کراچی کو ایک مرتبہ
پھر روشنیوں کا شہر بنا سکتے ہیں بلکہ پورے پاکستان کیلئے اِک نئی راہ
ہموار کر سکتے ہیں۔
اللہ تبارک وتعالٰی سے دُعا ہے کہ وہ جلد ہمارے خوابوں کو حقیقت کی شکل دے دے اور ہمیں ویسا نیا پاکستان مل جائے جسکی آس لگائے تمام قوم بیٹھی ہے۔ (آمین)