نوجوانوں کیلئے

’’بیٹا آپ۔۔۔۔ کیسے ہو؟ ‘‘ اُنہوں نے گیٹ کھولا اور مُجھے دیکھتے ہوئے بولیں۔
’’جی۔۔۔۔ الحمدُللہ۔۔۔آنٹی۔۔۔ میں جُنید سے ملنے آیا تھا؟‘‘
’’بیٹا، وہ تو جم گیا ہوا ہے بس آتا ہی ہوگا۔ آپ باہر کیوں کھڑے ہو، آؤ اندر۔۔۔۔ بیٹھو۔‘‘
میں نے اپنا عُذر بیان کرتے ہوئے اجازت طلب کی لیکن جُنید کی والدہ کے بے حد اسرار کے سامنے مُجھے ہار ماننا پڑی۔
جگری یاری کے باعث ہمارا اکثر ایک دوسرے کے گھر آنا جانا رہتا ہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُس کی والدہ مُجھ اور میرے خاندان سے بخوبی شناسا ہیں۔ حال احوال پوچھنے کے بعد کہنے لگی: ’’بیٹا اچھا ہوا آپ آگئے۔۔۔ میں کچھ دِنوں سے جُنید کی وجہ سے بہت پریشان ہوں۔‘‘
’’کیوں آنٹی خیریت؟ کیا ہوا جُنید کو؟‘‘

’’بیٹا۔۔۔ جُنید دِن بدن بدلتا جا رہا ہے۔ ہم سب اُسکے رویے میں نمایاں تبدیلی محسوس کر رہے ہیں۔۔۔ وہ پہلے جیسا نہیں رہا۔ نماز نہ روزہ، پوری پوری رات اپنے کمپیوٹر کے ساتھ چمٹا رہتا ہے، باقی ہر جانب سے اُسنے توجہ ہٹا لی ہے۔ ایک ہی گھر میں رہنے کے باوجود ہمارے درمیان فاصلے بہت بڑھ چُکے ہیں۔ بیٹا تم ہی اُسے سمجھاؤ میں بہت پریشان ہوں۔‘‘ اُن کے چہرے پر پریشانی کے آثار نمایاں تھے۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ بات تو یہ تھی کہ آنٹی جُنید سے ڈرنے لگی ہیں اور مُجھ سے نہایت پریشانی کے عالم میں کہنے لگی:’’ بیٹا۔۔۔۔ اُسے مت بتانا کہ میں نے آپ سے اُسکے متعلق کوئی بات کی۔ آپ نہیں جانتے کہ اِس بات کا علم جنید کو ہوا تو اُسکا ردِعمل کیا ہوگا۔‘‘ یہ کہہ کر آنٹی اپنے آنچل سے آنکھوں کو ملتے ہوئے کمرے سے باہر چلی گئیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دفتر میں معمول کے مطابق ہلچل تھی۔ رسیپشن پر بیٹھی لڑکی کان سے رسیور لگائے محوِ گفتگو، عملہ کے نوجوانوں کی حسبِ معمول بھاگ دوڑ، فوٹو سٹیٹ مشین آپریٹر فوٹو کاپیاں کرنے میں مصروف، خاکروب پوچا لگانے میں مگن۔۔۔۔
خاتون سہمے سہمے انداز میں دفتر کی اِس ہلچل کو دیکھ رہی تھی۔ یوں تو خواتین کی آمدورفت وہاں رہا ہی کرتی تھی لیکن اسکے تیز تیز اُٹھتے قدموں، ماتھے پر تیوری، سہمی ہوئی شکل اور چہرے پر گھبراہٹ کے آثار نے مُجھے خاتون پر توجہ مرکوز رکھنے پر مجبور کردیا۔ وہ شرافت کی چادر میں لپٹی، اِک گھریلو خاتون معلوم ہورہی تھی۔ شائید اُسکو کسی کی تلاش تھی یا کسی خاص مدد کی ضرورت۔۔۔۔
کافی کا کپ میرے ہاتھ میں تھا۔ میں نے ایک چُسکی لی، کپ کو میز پر رکھا اور اُٹھ کر محترمہ کے پاس چلا آیا۔ سلام کے بعد مخاطب ہوا: ’’جی فرمائیے میڈم!‘‘ اور سوالیہ نظروں سے محترمہ کی جانب دیکھنے لگا۔
’’ یہ۔۔۔۔۔ انٹرنیٹ کنکشن آپ ہی دیتے ہیں؟‘‘ خاتون نے نہایت مؤدبانہ انداز میں پوچھا۔
میں بات کر رہا ہوں سن 1999 کی اور یہ اِسلام آباد کی پی ٹی سی ایل کے بعد سب سے بڑی انٹرنیٹ سروسز پرووائیڈنگ کمپنی تھی۔ میرا خیال تھا کہ خاتون انٹرنیٹ کنیکشن لینا چاہتی ہیں۔ رسیپشن یا متعلقہ شخص کے پاس بھیجنے کی بجائے، میں نے خود ہی انکو کنکشن دِلوانے کا سوچا لہٰذا محترمہ کو اپنے ساتھ اندرونی دفتر میں لے آیا جہاں میرے علاوہ کمپنی کے چار مزید افراد کی بھی نشستیں تھیں ۔ میں نے خاتون کو بیٹھنے کا اشارہ کیا تاکہ بآسانی بات ہو سکے۔ محترمہ بیٹھتے ہی کہنے لگی: ’’میرے بیٹے کا نام احمر اقبال ہے۔ اُسنے آپسے کنکشن لیا ہے اور ہر ماہ یہاں ہی بل جمع کروانے آتا ہے۔ وہ میرا اکلوتا بیٹا ہے جِس سے مُجھے بے حد اُمیدیں ہیں لیکن اِس انٹرنیٹ کی وجہ سے پوری پوری رات جاگنا اُسکا معمول بن چکا ہے۔ کل رات میں اُسکے کمرے میں داخل ہوئی تو میری نظر اُسکے کمپیوٹر پر پڑ گئی۔‘‘ یہ کہہ کر محترمہ کے آنسو یوں چھلکنے لگے جیسے وہ اپنے آنسوؤں کو بہت دیر سے روکے ہوئے تھیں۔ میں قریب ہی بیٹھے کمپنی کے سیلز مینیجر کی جانب حیران کُن نظروں سے دیکھنے لگا، میرے دیکھتے ہی اُنہوں نے نظریں جھکا لیں. اب میری زبان بھی مکمل طور پر ساکت ہوچکی تھی۔
’’اُسکی کمپیوٹر پر مشغولیات کو دیکھ کر میں دھنگ رہ گئی۔ میری تربیت اتنی تو بُری نہیں تھی۔‘‘ خاتون نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا۔
’’میں اپنے بیٹے کا نیٹ بند کروانے آئی ہوں۔ آپ پلیز ابھی ہی اُسکا انٹرنیٹ کنکشن بند کر دیں۔ جتنا جلد ہو سکے میرے بیٹے کی جان اِس خباثت سے چھُڑا دیجئیے۔۔۔۔ ‘‘ اِس مرتبہ محترمہ آنسو بہانے کے برعکس ہمارے سامنے ہاتھ بھی جوڑنے لگیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ایسی سینکڑوں مائیں اپنے جگر گوشوں کیلئے بے چین اور فکرمند ہیں۔ میں نے بے شمار ایسے نوجوانوں کو دیکھا جنکی رات طلوعِ آفتاب کے بعد اور صبح سہ پہر دو یا تین بجے ہوتی ہے۔ اور تو اور فیس بُک اور چیٹنگ جیسی خباثت کی زد میں پوری پوری رات جاگنا لڑکوں کے ساتھ ساتھ اب نوجوان لڑکیوں کا بھی معمول بن چکا ہے۔ اُمتِ مسلمہ کی بیٹیاں جنکی پاک دامنی، شرافت، عزت اور حیا دُنیا کے سامنے ہمیشہ سے مثال رہی ہے، اب وہی محرموں سے چیٹنگ اور لغویات میں پوری پوری رات صرف کر دینے میں کوئی ممانعت نہیں سمجھتیں۔ پڑھائی یا کسی ضروری کام کے باعث راتوں کو جاگ کر محنت کرنے میں کوئی مماثلت نہیں لیکن اِسکو معمول بناتے ہوئے فحاش مشغولیات کو اپنانا نہ صرف قُدرت کے قوانین کی سخت خلاف ورزی ہے بلکہ اپنی زندگی کی بربادی کے ساتھ ساتھ والدین کے راحت کی بھی بربادی ہے۔ نوجوانوں سے گزارش ہے کہ خُدارا اپنا نہیں تو اپنے والدین کا ہی خیال کیجئیے۔ میں نہیں چاہتا آپکی ماؤں کو جُنید یا احمر کی ماؤں کی طرح آپکی وجہ سے آنسو بہانے پڑیں یا کسی کے سامنے ہاتھ جوڑنے پڑیں۔

15 comments:

  1. آہ ۔ ۔ ۔ آپ نے حقیقت بیان کر دی ہے ۔۔۔
    یہ ہماری کمزوری ہے جو کہ ہمارے نفس کو بھا گیا۔۔۔ ہم بس اسی کے غلام ہو کر رہ جاتے ہیں ۔۔۔۔

    کاش کہ ہم چیزوں کا صحیح استعمال کرنے والے بن جائیں ۔۔۔۔

    اللہ ہمارے ( خاص کر قوم کے نوجوانوں ) کے حال پر رحم کرے۔ آمین

    ReplyDelete
  2. عادل بھیا آپ نے ایک ایسا مسئلہ چیرا ہے کہ جس سے تقریبا ہر گھر متاثر ہے۔

    آج کل تو یو اس بی نیٹ نے اور بھی اسانی پیدا کرنی ،ورنہ پہلے تو والدین کنکشن ہی کتوا دیتے لیکن اب یو اس بی کا کیا ہوگا۔بچے بچے کی جیب میں ہے۔

    ساری ساری رات موبائل پر بستر میں چھپ کر فضول کام میں لگے ہوتے ہیں

    ReplyDelete
  3. بہت کچھ سوچنے کے با وجود میں اس تحریر پہ کچھ بھی کہنے سے قاصر ہوں۔
    کیونکہ بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔ ایکسس آف ایوری تھنگ از بیڈ۔ اس لئے والدین کو اب شروع سے ہی اپنی اولاد کو ان چیزوں سے نہ صرف آگاہی دینی ہے بلکہ مناسب کونسلنگ بھی کرنی ہے۔ وقت کے ساتھ رہ کر ان سب ٹیکنالوجیز کو سمجھنا بھی ہے اور بچوں کو ان کے مضر اثرات سے بچانے کا بندوبست بھی کرنا ہے۔

    ReplyDelete
  4. نور محمد بھیا:: جی بس اللہ ہی ہمارے حال پر رحم فرمائے لیکن ہم سب کو بھی شعور پیدا کرنے اور معاشرے کی اصلاح میں اپنا کردار ادا کرنا چاہئیے۔
    بلاگ پر خوش آمدید اور تبصرہ کرنے کا شکریہ۔

    درویش خُراسانی:: بچے تو بچے، اٹھارہ سے لے کر تقریباً بچیس سال کی عمر کے نوجوانوں میں تو اچھی خاصی عقل و شعور ہوتا ہے. یہ جو عمر کچھ کر دِکھانے، زندگی کے مقاصد پہچاننے اور والدین کی اُمنگوںکوں کو پورا کرنے کی ہوتی ہے اور وہ یوں برباد کررہے ہیں۔ یقین مانئیے دِلی دُکھ ہوتا ہے۔

    عمیر بھیا:: جی عمیر بھیا پرورش تو دور میں ہی بہترین کرنی چاہئیے لیکن کالج اور یونیورسٹی لیول کے نوجوان اب بچے تو نہیں ہوتے۔

    ReplyDelete
  5. عادل بھیا اس سلسلہ میں میرے خیال میں والدین کو اپنی اولاد کی سرگرمیوں پہ نظر رکھنی چائیے نیٹ ہو سکے تو کمپوٹر ایسی جگہ پہ ہو جہاں والدین نظر رکھ سکیں میرے خیال میں اگر والدین اپنی ذمہ داریوں کو پورا کریں اور شروع سے ہی صیحح تربیت کریں تو بہت کم ہی چانس ہے کہ اولاد غلط رہ کی طرف جائے گئی مگر افسوس کہ آج کل والدین ہی کو پتا نہیں کہ وہ بچوں کی تربیت کیسے کریں آج کل کے والدین کے پاس وقت ہی نہیں ہے

    ReplyDelete
  6. زمانے کے ساتھ قدم سے قدم ملا کے چلنے کے لیے والدین بچوں پہ کوئی روک ٹوک نہین رکھتے پھر انجام یہی ہوتا ہے ، اگر زمانے کے ساتھ چلتے ہوئے اپنی روایات اور اقدار کا خیال رکھا جائے تو نوبت شائد یہاں تک نا پہنچے ۔۔۔

    ReplyDelete
  7. یاسر بھیا:: تبصرے کا شکریہ۔ لیکن میرا نہیں خیال کہ آجکل کے والدین کے پاس اولاد کیلئے وقت نہیں۔ وقت ہے لیکن وہ فکر اور سوچ نہیں جو ہونی چاہئیے تھی

    حجاب:: جی بالکل آپکی بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ یہ والدین میں زمانے کے ساتھ قدم بہ قدم چلنے کا شوق ہے جو نوبت یہاں تک لے آتا ہے

    ReplyDelete
  8. میرے خیال سے آپ میرے نقطہ نظر کو سمجھ نہیں پا رہے۔ بلاشبہ بچوں کیلئے زیادہ احتیاطی تدابیر اور فکر کی ضرورت ہے لیکن میں نے یہ تحریر کالج اور یونیورسٹی کے درجات کے نوجوانوں کیلئے لکھی ہے۔ آپ سب والدین کو ہی قصور وار ٹھہرا رہے ہیں لیکن اگر اپنے گردونواح میں نظر دوڑائی جائے تو آپ اور ہمارے بیشتر بلاگر خواتین و حضرات نوجوان ہیں جن میں سے بیشتر ابھی تعلیمی سرگرمیوں میں مصروف۔ کیا ایسے نوجوانوں کو زیب دیتا ہے کہ بوجہ فیس بُک یا چیٹنگ پوری پوری رات صرف کر دیں بلکہ اِسکو اپنا معمول ہی بنا لیں؟ اِس عمر میں بھی اگر والدین کی نگرانی کی ضرورت تو ہو تو میرے خیال سے اِس سے بڑی شرم کی بات کوئی نہیں

    ReplyDelete
  9. اللہ تعالیٰ اس امت کے نوجوان لڑکے اور لڑکیوں سے وہ کام لے جن سے ان کی آخرت سنور جائے ناکہ وہ کام جن سے وہ جہنم کے گڑھے میں جاپڑیں۔
    colourislam.blogspot.com

    ReplyDelete
  10. آمین ثم آمین۔
    ثاقب بھیا آج پہلی مرتبہ آپکو یہاں دیکھا، میرے بلاگ پر خوش آمدید۔

    ReplyDelete
  11. عادل بھیا بہت اچھا نقتہ آپ نے اٹھایا لیکن افسوس کہ سب کچھ پتہ ہونے کے باوجود بھی ہم اُسی راستے کی جانب گامزن ہیں۔اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے ۔آمین

    ReplyDelete
  12. وسیم بھیا پہلی مرتبہ تشریف لانے اور تبصرے کا شکریہ۔ جی بالکل، اللہ ہمارے احوال پر رحم فرمائیں۔ ثم آمین

    ReplyDelete
  13. میں نے آپکی پوسٹ پڑھی۔۔۔ اس بلاگ پہ اچانک آمد ہوئی۔۔۔ خیر تصویر کا دُوسرا رُخ بھی بیان کرنا چاہُوں گا۔۔۔۔ دیکھیے اب ایک انٹرنیٹ ہے۔۔۔ یعنی ایک دُنیا آپکے انگوٹھے تلے۔۔۔ اسکو استعمال کرنے والا شروع میں بے شک اسکے منفی اور مثبت دونوں پہلوؤں کو دیکھے گا۔۔۔۔ یہ نا مُمکن بات ہے کہ وہ بس پازیٹو ہی پازیٹو رہے لیکن نیگیٹو کے بعد تربیت کی بات آتی ہے کہ وہ اس نیگیٹو چسکے کو طُول دیتا ہے یا آہو۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. تشریف آوری اور تبصرے کا شکریہ۔ آپ سے گزارش ہے کہ بھیا کچھ کھُل کر تبصرہ کیجئیے :) تاکہ سمجھنے میں آسانی ہو۔
      دوسری بات یہ کہ منفی مشغولیات کے قریب جانا ہی غلط ہے لیکن اُنکو عادت ہی بنا لینا، نہایت ہی غلط اور غیر اخلاقی عمل ہے۔ اِس سلسلے میں کچھ تربیت اور ہوش کے ناخن لینے کی ضروت ہے

      Delete

Powered by Blogger.
۔
Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...