’’اللہ نے دس سال بعد مجھے بیٹے کی نعمت سے نوازا۔ اپنے لعل کی بہترین تربیت کروں گی بلکہ میں تو کہتی ہوں اللہ نے اسے ہمارے بڑھاپے کا سہارا بنا کر بھیجا ہے۔‘‘
’’بیگم میں تو اپنی تمام تر کمائی اپنے بیٹے کی پڑھائی پر صرف کروں گا۔ اسے بہترین تعلیم دلواؤں گا تاکہ پڑھ لکھ کر اسکا مستقبل روشن ہوجائے۔"
’’اور پھر ہم اپنے چاند سے بیٹے کیلئے کسی اچھے گھرانے کی پڑھی لکھی اور خوبصورت سی لڑکی تلاش کریں گے۔‘‘
بیٹے کی پیدائیش پر ہی اُسکے مستقبل کے بارے میں لمبے لمبے خواب دیکھے جانے لگتے ہیں اور لمحہ بھر میں بات شادی تک آن پہنچتی ہے۔ لیکن یہ بات صرف بیٹوں تک ہی محدود نہیں۔۔۔
دوسری جانب اللہ ایک گھرانے کو پہلی بیٹی کی صورت میں اپنی رحمت سے نوازتا ہے۔ والدین نہ صرف نہایت پُر مسرت دِکھائی دیتے ہیں بلکہ روزِ اوّل سے ہی اپنی بیٹی کے مستقبل کے بارے میں فکر مند بھی ہونے لگتے ہیں۔ وہی خواب۔۔۔ اچھی تربیت۔۔۔ اچھی تعلیم۔۔۔ بہت سی خوشیاں۔۔۔ اور بالآخر ان خواہشات کی قطار کا اختتام شادی کے موضوع پر ہوتا ہے۔
لڑکا بہترین ذریعۂ معاش حاصل کرچکتا ہے اور لڑکی بھی اپنی پڑھائی سے فارغ ہونے کو ہوتی ہے کہ والدین میں اولاد کے رشتوں کی فکر زور اختیار کر لیتی ہے۔ اُنہیں اُٹھتے بیٹھتے،چلتے پھرتے غرض لمحہ بہ لمحہ صرف اور صرف اپنی اولاد کے رشتوں کی فکر لاحق رہنے لگتی ہے۔ بلاشبہ رشتے تو آسمانوں پر ہی بنتے ہیں لیکن آسمانوں پر بنے ان رشتوں کو ملنے میں عموماً کافی وقت لگ جاتا ہے۔ لہٰذا کچھ عرصہ مناسب رشتہ نہ ملنے پر والدین راتوں کو جاگ جاگ کر اپنی اولاد کے رشتے کیلئے دُعائیں مانگنے لگتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بیٹی کا معاملہ تو ہوتا ہی حساس ہے لیکن لڑکے کے والدین بھی کم پریشان نہیں ہوتے ۔ کہیں والدین خاندان سے باہر رشتہ نہیں کرنا چاہتے تو کہیں خاندان میں موجود تمام رشتوں کو ٹھُکر ا دیا جاتا ہے اور ایسی صورتِ حال میں تمام رشتہ دار تاک لگائے بیٹھ جاتے ہیں کہ جناب اپنے لئے کیسی بہُو کا انتخاب کرتے ہیں؟ یوں والدین کی فکر میں مزید اضافہ ہوا جاتا ہے۔ خیر بات بیٹی کے رشتے کی ہو یا بیٹے کے، دونوں صورتوں میں والدین فکر مند رہتے ہیں، لمبی لمبی تسبیحات، دُعاؤں اور وظائف کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اور تو اور خانہ کعبہ کے سامنے بھی سجدہ ریز ہوکر جہاں بہت سی دُعائیں کی جاتی ہیں وہیں اولاد کے رشتے کیلئے بھی خصوصی دُعائیں مانگی جاتی ہیں۔غرٖض دن رات اللہ سے رابطہ استوار رہتا ہے۔
خیر اللہ اللہ کر کے رشتہ طے پاتا ہے۔۔۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے مواقع والدین کی راحت و فرحت کا باعث بنتے ہیں۔ لہٰذا نہ صرف والدین بلکہ دوسرے عزیز و اقارب بھی اس خوشی سے پھولے نہیں سماتے اور یہ خوشی کی چوٹ اس حد تک گہری لگتی ہے کہ انسان اپنی یادداشت ہی کھو بیٹھتا ہے۔ وہ راتوں کا جاگ جاگ کر نوافل پڑھنا، لمبی لمبی تسبیحات اور وظائف کا اہتمام کرنا حتٰی کہ حرم پاک میں بھی سجدہ ریز ہو کر جو دُعائیں کیں، آج وہ سب بھول گئیں۔۔۔ وہ ضعیف العمر عورت جسکی ٹانگیں قبر میں ہیں آج اُسکی بھی جوانی اُبھر آئی۔۔۔ جس کے ہاتھ میں ہمیشہ تسبیح رہتی تھی آج یہی عورت اپنے سر کے آنچل کو بھی بھُلا بیٹھی۔ خاندان کے وہ بزرگ جنکی صبح و شام اللہ اللہ کرتے ٖصرف ہوتی تھی، آج وہ بھی اپنی عمر، اپنے وہ سجدے، سب بھُلا بیٹھے۔۔۔ اپنے ہی گھرانے کی بیٹیاں، جنکو اپنی عزت سمجھا کرتے تھے، آج اُنکو سرِعام ناچتا دیکھ کر خوش ہوا جاتا ہے۔ چلو ہمارا کوئی دین مذہب نہیں، ہمیں آخرت کی فکر نہیں لیکن کیا شریف اور معزز خاندانوں کی عزتیں یوں ہی سرِعام ناچا کرتی ہیں؟ کیا یہی عزت ہے ان معزز گھرانوں کی؟
ہم بھول جاتے ہیں کہ ہمیں اللہ دیکھ رہا ہے، وہ ہماری ان تمام نافرمانیوں سے ہر ہر لمحہ باخبر ہے، ہم بھول جاتے ہیں کہ ہمارا ایک ایک عمل ہماری جنت بنا رہا ہے یا پھر جہنم۔۔۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ ہمارے نبی ﷺ نے اپنی اور اپنی بیٹیوں کی شادیاں کیسے کیں ۔۔ یہ بھلا دیا جاتا ہے کہ اس دُنیا میں رہتے ہوئے ، ایک مسلمان ہونے کی حیشیت سے میں اپنی من چاہی کے مطابق زندگی نہیں گزار سکتا، میرے لئے کچھ اُصول اور حدود متعین فرما دی گئی ہیں جنکی پاسداری کرنا ہی میرے حق میں بہتر ہے۔ ابھی بھی وقت ہے میں اپنے ضمیر کے دروازے پر دستک دے سکتا ہوں اور اپنی اس بھولی ہوئی یادداشت کو واپس لا سکتا ہوں ورنہ ذلت و خواری کی ایک لامحدود زندگی میرا انتظار کر رہی ہے جہاں ماسوا پچھتاوے کے کچھ کام نہیں آئے گا۔