تعارف

فارغ اوقات میں عموماً انسان کی آنکھوں اور ہاتھوں کا انجن سٹارٹ ہو جاتا ہے۔ آنکھیں 6x6 کا گئیر لگاتی ہیں تو دیواروں پر لٹکے مکڑی کے جالے نظر آنے لگتے ہیں۔ پنکھوں پر جمی گرد کالی گھٹا کا منظر پیش کرنے لگتی ہے۔ ہر طرف بکھرا گند آپکی توجہ مانگ رہا ہوتا ہے۔ مالک کو نوکر کی کام چوریاں دِکھائی دینے لگتی ہیں، نوکر کو مالک کی وہ عادات دِکھائی دینے لگتی ہیں جنکو مالک کی غیر موجودگی میں یاد کر کے نہایت لطف اندوز ہوا جاسکتا ہے۔ اسکے برعکس جب ہاتھ ایکشن میں آتے ہیں تو آنکھوں کی دکھائی ہوئی راہوں پر چلنے لگتے ہیں۔ یا پھر بلا وجہ اردگرد کی چیزوں کو ٹٹولنے لگتے ہیں۔۔۔

اُن دنوں میری کوئی خاص مصروفیات نہ تھیں۔ میں فارغ بیٹھا وقت کو دھکے دئیے گزار رہا تھا۔ اچانک میری نظر نے قریب ہی پڑے ایک چھوٹے سے ناول پر بریک لگائی۔ ہاتھوں نے فوراً حرکت کرتے ہوئے ناول کو گود میں اُٹھا لیا اور تو اور زبان بھی چُپ نہ بیٹھ سکی اور عنوان وغیرہ پڑھنے کے بعد پورا ناول پڑھنے لگی۔ وہ مُلک کے ایک نامور ناول نگار کا جاسوسی ناول تھا۔ چند صفحات پڑھنے کے بعد چھوڑنے کا جی ہی نہیں چاہا غرٖض جب تک میں نے وہ ناول پورا نہیں پڑھ لیا نہیں اُٹھا۔ مجھے وہ ناول نہایت پسند آیا یہی وجہ ہے کہ میں اُسکے بعد اُن ناول نگار کے لکھے ہوئے تمام جاسوسی ناولوں کر پڑھنے لگا۔ ناولوں کے علاوہ بھی اُنکی لکھی ہوئی بے شمار کُتب اور تحاریر کا مطالعہ کیا۔ جہاں اُنکے بارے میں کچھ نظر آتا، فوراً پڑھنے لگ جاتا۔ مختلف رسالوں وغیرہ میں بھی اُنکا تعارف پڑھنے کو ملا۔ ایمیل ایڈریس تو کہیں سے ملا نہیں لہٰزا خط لکھ کر ہی ’’نصف ملاقات‘‘ کر ڈالی۔ کچھ ہی دن بعد اُنکے جوابی خط نے میری حوصلہ افزائی کر دی جسکے بعد میں نے ایک اور خط لکھ ڈالا جس میں اپنے مکمل پتہ کے ساتھ میں نے اپنا موبائل نمبر بھی ارسال کردیا۔ کچھ دن بعد میری خوشی کی انتہا نہ رہی جب ناول نگار نے مجھے کال کر کے میرے خط پر پسندیدگی کا اظہار کیا۔ اور میرے خط کا جواب دیا۔
انکی بے شمار تحاریر پڑھنے کے بعد میں انکے بارے میں بہت کچھ جان چکا تھا اور مزید جاننے کیلئے سرچ بھی کی لیکن کوئی خاص معلومات نہ مل سکیں۔ لہٰزا میں نے یہ ٹھان لی کہ اب میں ان مصنف اور انکی زندگی کے بارے میں بذاتِ خود ضرور کچھ لکھوں گا۔ لیکن اسکے لئے مجھے چند مزید معلومات کو اکٹھا کرنا ہوگا۔

میری اس تحریر لکھنے کا مقصد یہ بات واضح کرنا تھی کہ کسی بھی لکھاری کا تعارف اُسکی تحاریر ہوتی ہیں۔ اُس کی زیادہ سے زیادہ تحاریر پڑھ کر اُسکے بارے میں بہت کچھ جانا سکتا ہے مثلاً اُسکے عقائد، نظریات، جزبات، سوچ، روزانہ کے معمولات، وغیرہ وغیرہ۔ غرض ایک شخص، ایک لکھاری کی تحاریر پڑھ کر اُسکے بارے میں وہ سب کچھ جان سکتا ہے جو اُس کیلئے کسی دوست کے بارے میں جاننا ضروری ہوتا ہے۔  بلکل اسی طرح آپکو میرے بلاگ کا ہر صفحہ میری سوچ، عقائد، نظریات، جزبات، محسوسات اور معمولات کی عکاسی کرتا دکھائی دے گا، قصہ مختصر، اس بلاگ کا ہر ہر صفحہ میرا تعارف ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(آجکے بعد تعارف کے صفحے پر اس تحریر کو میرے تعارف کے طور پر شائع کیا جائے گا)

درندہ صفت

یحیٰ کا آپریشن الحمدللہ کامیابی سے ہوگیا ہے اور اب تو وہ گھر بھی آگیا لیکن تاحال بیڈ پر ہی ہے۔ پہلے اُسکی ٹانگ کے نیچے تین تکئیے رکھے جاتے تھے جبکہ اب ڈاکٹروں نے اُنہیں تین سے کم کر کے ایک کرنے کا کہا ہے۔ اِس سے آپ اُسکی موجودہ حالت کا بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں۔

خیر بڑھتا ہوں اُس بات کی جانب جس نے آج مجھے لکھنے پر مجبور کیا۔ دراصل آپریشن کے بعد یحیٰ کو جس وارڈ میں منتقل کیا گیا، وہیں کچھ فاصلے پر ایک اِکیس سالہ لڑکی اپنے بیڈ پر لیٹی تکلیف سے بلبلا رہی تھی۔ نوجوان لڑکی کی تکلیف ناقابلِ دید تھی اور اُسکی ماں آنسو بہاتے ہوئے اُسے بار بار دلاسا دے رہی تھی۔ باپ نہایت بے چینی کے عالم میں ڈاکٹروں کے پاس چکر لگارہا تھا۔ غرض مجھ جیسے نازک دِل انسان کیلئے یہ پورا منظر دیکھنا ہی نہایت اذیت کا سبب بنا۔
یہ نوجوان لڑکی ایک پرائیویٹ فرم میں ملازمت کرتی ہے۔ ایک دن دفتر جانے کیلئے بس سٹاپ پر کھڑی تھی کہ کچھ لفنگے ایک گاڑی میں آئے اور جاتے جاتے لڑکی کو ٹکر مار گئے۔ نجانے اُنہوں نے شرارت سے مارا یا ظالموں کو کوئی دُشمنی تھی یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے لیکن نوجوان لڑکی اور اُسکے والدین کی سینکڑوں بد دُعائیں ہمیشہ کیلئے ساتھ لیتے گئے جو شاید اُنہیں پوری زندگی چین سے نہ بیٹھنے دیں۔ مریضہ کے والدین کہتے ہیں کہ ہم بچی کو شہر کے ایک بڑے سرکاری ہسپتال لے گئے۔ ڈاکٹر سے ملے تو وہ کہنے لگا کہ یہ سرکاری ہسپتال ہے۔ یہاں علاج کروایا تو ایک لمبا عرصہ لگ جائے گا۔ چند پیسوں کی بچت کی خاطر آپ کہاں اتنا انتظار کرتے رہیں گے؟ لہٰزا بہتر یہی ہے کہ شام کو میرے پرائیویٹ ہسپتال آجائیے، وہاں جلد آپریشن ہو جائے گا۔ یہ کہہ کر ڈاکٹر نے اپنا ویزیٹینگ کارڈ ہمارے ہاتھ میں تھمایا اور باقی مریضوں کی جانب بڑھ گیا۔
والدین کا کہنا ہے کہ بچی کا رشتہ بھی طہ پایا ہوا ہے۔ ہمیں اس بات کا ڈر تھا کہ اگر کسی سرکاری ہسپتال سے علاج کروایا اور خداناخواستہ کچھ دیر ہوگئی تو کہیں لڑکے والے رشتہ ہی نہ توڑ دیں۔ بس یہی سوچ کر ہم ڈاکٹر کے پرائیویٹ ہسپتال پہنچ گئے۔ ڈاکٹر نے آپریشن کیلئے ایک بڑی رقم کا مطالبہ کیا جسکا بندوبست کرنا ہمارے لئے نہایت مشکل امر تھا۔ خیر جس طریقے سے ہم نے ڈاکٹر کی فیس ادا کی یہ ہم ہی جانتے ہیں یا پھر ہمارا رب۔ ہسپتال سے ڈسچارج کرنے کے بعد بھی بچی کی تکلیف میں کوئی کمی نہ ہوئی۔ پہلے تو ہم سمجھے کہ شاید رفتہ رفتہ صحت بہتر ہو جائے گی لیکن تکلیف میں دن بدن اضافہ ہی ہوتا گیا لہٰذا ہم بچی کو  شہر کے ایک اور بڑے ہسپتال لے گئے جہاں کچھ ابتدائی علاج کرنے کے بعد ڈاکٹروں نے بتایا کہ بچی کی ٹانگ میں نقلی راڈ ڈالا گیا ہے لہذا دوبارہ آپریشن کر کے اُسکو نکال کر نیا راڈ ڈالا جائے گا۔
والدین کیلئے ایک تو بچی کا غم، دوسرا بچی کے رشتے کی فکر کہ کہیں وہ یہ نہ کہیں کہ فقط پیسے کی بچت کی خاطر دیر کر رہے ہیں۔ بس یہی سوچ کر پیسے کی فکر کئے بِنا جتنا جلد ممکن ہوسکے علاج کروانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں لیکن ایک متوسط خاندان کیلئے اتنی بڑی رقوم کا بندوبست کرنا کتنا آسان ہے؟ یہ ہم سب بخوبی جانتے ہیں۔

جب سے اس واقعہ کا علم ہوا، بار بار میرے ذہن میں وہ لمحات کسی ویڈیو کی طرح گردش کرنے لگ جاتے ہیں کہ لڑکی اپنے بیڈ پر لیٹی تکلیف سے بلبلا رہی ہے، ماں آنسو بہاتے ہوئے بچی کو تسلی دے رہی ہے اور باپ سخت پریشانی کے عالم میں ڈاکٹروں کے پیچھے بھاگ دوڑ رہا ہیں۔ پھر سوچتا ہوں اِس اسلامی جمہوریہ کے اِن درندہ صفت باشندوں کے بارے میں جو فقط اپنے پیٹ کے خداؤں کی بھوک کو مِٹانے کیلئے دوسروں کا گوشت بھی کھا جاتے ہیں اور اِنہیں خداؤں کی پیاس بُجھانے کیلئے ہر لمحہ دوسروں کا خون پینے کیلئے بھی تیار رہتے ہیں، پھر بھی نہایت پُر اُمید انداز میں اس مُلک پر چھائی گھٹا کے جلد ہی چھَٹ جانے کی پیشن گوئیاں کرتے ہیں۔

یحیٰ

یحیٰ کے والد ائیر فورس سے ریٹائیرڈ ہیں اور محلے کی مین سٹریٹ میں دو دوکانوں کے مالک بھی ہیں۔ ماہانہ پینشن اور دوکانوں کا کرایہ ہی انکی کُل آمدنی ہے جسکی مدد سے وہ نہ صرف سفید پوشی سے زندگی بسر کر رہے ہیں بلکہ اپنے بچوں کو بہترین تعلیم دلوا کر اپنا فرض احسن طریقے سے سرانجام دے رہے ہیں۔ وہ پانچ وقت کے نمازی اور نہایت نیک انسان ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یحیٰ بھی اِک خوش مزاج‘ نیک سیرت اور نہایت اچھے اخلاق کا نوجوان ہے۔
یحیٰ کے والدین اپنے بیٹے سے بے حد پیار کرتے ہیں کیونکہ اللہ تعالی نے چھ بیٹیوں کے بعد اُنکو ایک بیٹے کی خوشی  سے نوازا۔ اُسکی حیثیت  اِن چھ بہنوں کے درمیان ایک چمکتے دمکتے چاند کی سی ہے۔ جسکی چاندنی اور ٹھنڈک میں وہ پورا گھرانہ ہنستا مسکراتا زندگی بسر کر رہا ہے۔ یحیٰ کے والدین کی پوری کوشش ہے کہ یحیٰ پڑھ لکھ کر کچھ بن جائے تاکہ وہ نہ صرف بڑھاپے میں اُنکے سہارے کا ذریعہ بن سکے بلکہ معاشرے میں اُنکو بھی عزت سے سر بلند کرنے کا موقع مل سکے۔ غرض یحیٰ کے والدین کی تمام تر اُمیدوں کا مرکز اور اُنکی خوشیوں کا باعث تنِ تنہا یحیٰ ہے۔
----------------------------------------
دفتر سے گھر لوٹا تو چھوٹے بھائی نے نہایت جلدی میں سلام کیا۔ ابھی میں سلام کا جواب بھی نہ دے پایا تھا کہ کہنے لگا: ’’بھائی آپکو علم ہوا؟ وِو۔۔ وو۔۔۔ وہ۔۔۔‘‘ بھائی کی اس حد تک ہچکچاہٹ اور گبراہٹ دیکھ کر اندازہ ہوگیا کہ ضرور کوئی نہایت اہم بات پیش آئی ہے۔ ابھی میں مزید کچھ کہنے ہی والا تھا کہ وہ بول پڑا: ’’وہ یی۔۔۔یی۔۔ یحیٰ کا ایکسیڈنٹ ہوگیا۔‘‘

یحیٰ موٹرسائیکل پر سوار یونیورسٹی جا رہا تھا کہ راستے میں اُسکا ایک پِک اَپ سے ایکسیڈینٹ ہوگیا۔ پِک اَپ کے ڈرائیور نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور فوراً جائے وقوعہ سے غائب ہوگیا لیکن  اُسے کیا معلوم کہ وہ جاتے ہوئے نہ صرف ایک ہنستے مسکراتے گھرانے کی مسکراہٹوں اور خوشیوں کو لوٹ گیا بلکہ چھ بہنوں کے اکلوتے بھائی، بوڑھے والدین کے تنِ تنہا سہارے، یحیٰ کو ایک ٹانگ سے محروم کر گیا۔۔۔۔
یحیٰ کے گھر عیادت کیلئے گیا تو اُسکے والد کے چہرے کو پہلی مرتبہ اتنا بُجھا ہوا پایا۔ انکل نے بتایا کہ ڈاکٹروں نے معمولی علاج کے بعد یحیٰ کو گھر بھجوا دیا۔ بےحد اصرار پر بھی وہ یحیٰ کو ہسپتال میں ایڈمٹ نہیں کر رہے۔ پورا دن بچے کو تڑپتا چھوڑ کر ہسپتال میں بھاگتا دوڑتا رہا کہ شائید کوئی سُن لے لیکن اُن کے کان پر تو جوں تک نہیں رینگتی۔ اگر یحیٰ کا آپریشن وقت پر نہ ہوا تو۔۔۔۔ یہ کہہ کر انکل نے سر جھُکا لیا اور اپنے آنسو پونجھنے لگے۔ میں نے آج سے پہلے اُنکو اتنا مایوس اور اُداس کبھی نہیں دیکھا تھا۔ چند لمحوں کے بعد انکل نے سر اوپر اُٹھایا اور کہنے لگے: ’’اب سوچ رہا ہوں کہ کوئی سفارش ڈھونڈوں تاکہ وہ لوگ میرے بچے کو ایڈمٹ کر لیں۔ میری نہیں سنتے کسی بڑے آدمی کی تو سُن لیں گے نا۔‘‘ یہ کہہ کر انہوں نے دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ لیا اور جھکے سر کے ساتھ زمین کو گھور گھور کر دیکھنے لگے۔

بچے کی ذہانت


میزبان چند لمحوں کیلئے مجھے اِس کمرے میں تنہا  چھوڑ گیا۔ میں اُٹھا اور حسبِ عادت کمرے میں ٹہلنے لگا۔ میری نظر کتابوں کے ایک شیلف پر پڑی جس پر مختلف چھوٹی موٹی کتابیں پڑی ہوئی تھیں۔ میں شیلف کے قریب گیا اور کتابوں کو ٹٹولنے لگا۔ اچانک میرے ہاتھ اِک چھوٹی سی ڈائری لگی جو تمام کتابوں کے عقّب میں پڑی ہوئی تھی۔ یہ ڈائری ایک چودہ، پندرہ سالہ طالب علم کی تھی۔ میں بےدھیانی میں ہی اسکے صفحات پلٹنے لگا۔ صفحات پلٹنے سے اِک نہایت عمدہ خوشبو میری سانسوں میں داخل ہوئی۔ طالب علم نے لکھنے کیلئے بہت سے رنگوں کو استعمال کر کے ہر صفحے کو دُلہن کی مانند سجایا ہوا تھا۔ گویا یہ سب طالب علم کی اس ڈائری سے محبت کو واضح کر رہا تھا۔ میں نے ایک صفحے کو پڑھنا شروع کیا تو پڑھتا ہی گیا۔ ہر صفحے کو پڑھ لینے کے بعد میرے ہونٹوں پر اِک ہلکی سی مسکراہٹ پھیل جاتی۔ ڈائری میں مختلف موضوعات پر مواد موجود تھا جس میں سے زیادہ تر اقوال زریں تھے اور کہیں کہیں طالب علم نے اپنے بارے میں بھی کچھ لکھا ہوا تھا۔ میں جوں جوں ڈائری کے صفحات پڑھتا گیا، مجھے بچے پر نہایت پیار آنے لگا۔ ڈائری میں موجود کچھ باتیں جوں کی توں آپکی خدمت میں پیش کر رہا ہوں:
’’جس طرح ماہی کو آب میں۔۔۔۔۔ سمندر کو آگ میں۔۔۔۔۔ بوم کو جنگل میں۔۔۔۔۔ کوئل کو منگل میں۔۔۔۔۔ بھوکے کو کھانے میں۔۔۔۔ بچے کو کھیل میں۔۔۔۔۔ مسافر کو ریل میں۔۔۔۔۔ شیر کو کچھار  میں۔۔۔۔  گھوڑے کو تنگ میں۔۔۔ ۔مجاہد کو جنگ میں۔۔۔۔  حریص کو  مال میں۔۔۔۔ فقیر کو حال میں۔۔۔۔ اطمینان حاصل ہوتا ہے۔۔۔۔اسی طرح دِل کو اللہ کے ذکر میں اطمینان ہوتا ہے۔‘‘
’’ وہ قوم  کبھی فلاح نہیں پاسکتی جس نے مخلوق کی رضا خرید کر اللہ کی ناراضگی مول لی ہو۔ ‘‘
’’خوشی کے پھولوں سے اتنا پیار مت کرو کہ اُنکے پنکھڑ سے غم کا عرق نکلنے ٹپکنے لگے۔‘‘
’’یہ ضروری نہیں کہ خوبصورت بھی ہو اور نیک سیرت بھی، کام کی چیز اندر ہوتی ہے باہر نہیں۔‘‘

پڑھتے پڑھتے میں ایک ایسے  صفحے پر پہنچا جو خراب پرنٹنگ کے باعث دُرست  پرنٹ نہیں ہوپایا تھا اور یہ صفحہ بلکل سادہ دکھائی دے رہا تھا۔ صفحے کے اوپر چھوٹی سی اِک سطر لکھی تھی جو کہ یہ ہے:
’’زندگی اِک سادہ صفحے کی مانند ہے جس میں رنگ تم خود بھرتے ہو‘‘
صفحے کے نیچے ایک نوٹ لکھا ہوا تھا کہ دو صفحے مزید آگے دیکھیں۔ میں نے دو صفحات پلٹے تو اِک ویسا ہی سادہ صفحہ نظر آیا جس   پر بہت سے رنگوں سے یہ  لکھا ہوا تھا :
’’میرے دوستو! دیکھیں پہلا صفحہ بلکل سادہ تھا اور نہایت بُرا لگ رہا تھا لیکن اب اِس صفحے پر میں نے رنگ بھر کر اِسکو سجا دیا تو یہ کتنا خوبصورت لگ رہا ہے۔ جس طرح یہ صفحہ خالی ہے اِسی طرح ہمارے دِل بھی ایمان سے خالی ہیں۔ اپنے سادہ اور خالی دلوں کو ایمان سے بھر لو تاکہ یہ تمہیں کوئی فائدہ پہنچائیں۔ شکریہ‘‘

یہ پڑھ کر میں بچے کی سوچ اور ذہنیت پر حیران ہو کر رہ  گیا۔ کیا آج بھی ایسے بچے ہوتے ہیں؟ اسکے علاوہ بھی میں نے اس بچے میں چند باتیں نہایت منفرد دیکھیں ہیں جو موقع ملنے پر پھر کبھی آپکے سامنے رکھوں گا۔ میرا دل کہتا ہے اور مجھے پوری اُمید ہےکہ یہ بچہ بڑا ہو کر ایک دن ضرور کچھ کر دکھائے گا۔ انشاءاللہ


سیدھی راہ

آج میں آپکے سامنے ایک ایسا مسئلہ بیان کرنے جا رہا ہوں جو شائید  آپ سب کیلئے کوئی بڑی بات نہ ہو لیکن میرے لئے یہ اِک بڑا مسئلہ ہے۔ اِس مسئلے کا  سامنا مجھے ہر آئے دن کرنا پڑتا ہے۔ دراصل  بات کچھ یوں ہے کہ ابھی حال ہی میں مجھے ایک سُنت عمل کا علم ہوا  ہے جس سے شائید آپ میں سے بھی  کچھ حضرات واقف نہ ہوں اور وہ سُنت یہ ہے کہ اگر آپ کسی سواری پر سوار ہیں تو  راہ کی بائیں جانب کو اختیار کریں اور اگر پیدل ہیں تو ہمیشہ راہ کی دائیں جانب چلیں۔ یہ جان کر خوشی ہوئی کہ ہمارے اِس مُلک کے ٹریفک کا قانون بھی اِسی سُنت کے مطابق ہے۔  یعنی اگر آپ سواری پر سوار ہیں تو بائیں جانب وگرنہ دائیں جانب چلیں۔ چونکہ ہماری ٹریفک پولیس اِس سنت کے پہلے حصے پر تو زبردستی عمل کرواتی ہے لیکن دوسرے حصے کا کبھی ذکر نہیں کیا گیا اِس لئے  عوام  یہی سمجھتی ہے کہ پیدل چلتے ہوئے بھی راہ کی بائیں جانب کو ہی اختیار کرنا چاہئیے۔ یہی وجہ ہے کہ شاہرائیں ہوں یا بازار یا کوئی گلی محلہ ‘ پیدل چلنے والے ہمیشہ راستے کہ بائیں جانب ہی چلتے  نظر آتے ہیں۔ ٹریفک پولیس کے مطابق دائیں جانب چلنے کا ثمر یہ ہے کہ آپ سامنے سے آتی ہوئی گاڑی کو بآسانی دیکھ سکتے ہیں اور ایسے میں کسی بھی ناخوشگوار واقعہ سے بچ سکتے ہیں۔
آپ سب سوچ رہے ہوں گے کہ اِس پوری بات میں مسئلہ کیا تھا؟ دراصل یہی تو مسئلہ ہے کہ اگر کسی بازار وغیرہ میں چلتے ہوئے اِس سُنت پر عمل کیا جائے تو ہر ہر قدم پر آپکو ایک ایک دھکے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کہیں کسی کا کندھا آپکے کندھے سے ٹکرا رہا ہے تو کہیں کسی کا پاؤں آپکے پاؤں پر آرہا ہے۔ اور اگر مخالف شخص سخت طبیعت کا ثابت ہوا تو شائید آپکو کچھ کھَری کھَری سنا بھی جائے  اور ایسے میں ہو سکتا ہے کہ آپکو اَن پڑھ, جاہل اور  بیوقوف  جیسے چند القابات سے بھی نواز دیا جائے۔ اگر تو آپ بول پڑے کہ بھیا میں تو سہی جانب کو چل رہا ہوں۔۔۔ غلط تو آپ ہیں تو پھر اپنی خیر منائیے۔۔۔ آپکے مخالف کو چونکہ اِس بات پر پورا یقین ہے کہ بائیں طرف کو ہی چلنا دُرست ہے لہذا اُسکے بگڑ جانے کے امکانات زیادہ ہیں اور مُمکن ہے کہ وہ چلانا بھی شروع کر دے ۔ ایسے میں اگر دو چار بندے اور بھی جمع ہو گئے تو قصوروار آپکو ہی ٹھہرائیں گے۔۔۔ روڈ ہو یا بازار‘ کوئی مُحلہ ہو یا کوئی گلی۔۔۔  دائیں جانب چلتے ہوئے ہمیشہ ہی  اِس مسئلےکا سامنا کرنا پڑتا ہے۔۔۔
ہمارے اِس اسلامی جمہوریہ پاکستان کا کوئی بھی شعبہ ہو‘ اگر آپ سیدھے ہاتھ پر چلنے کی کوشش کریں گے تو لاکھ رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ کہیں کوئی سامنے سے آکر آپکو ٹکرتا ہے تو کہیں کوئی دائیں بائیں سے۔ سرکاری شعبہ ہو یا غیرسرکرکاری , آپکو کسی صورت بھی سیدھے ہاتھ نہیں چلنے دیا جائے گا اور اگر آپ پھر بھی اپنی راہ کے اِس تعین پر بضِد ہیں تو آپکو اُن تمام نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا جو قانوناً  اور شریعۃً اُلٹے ہاتھ پر چلنے والے کا مقدر ہونے چاہئیے تھے۔ غرض اِس پورے ماحول میں جہاں سب اُلٹے ہاتھ کو ہی چلتے ہیں, اب سیدھے ہاتھ پر چلنا نہایت معیوب سمجھا جاتا ہے اور اگر کوئی چلنا بھی چاہے تو  بالآخر  شکست اُسکا مقدر ہے۔
کیا ایسا ممکن ہے کہ کوئی اِس مُلک میں رہتے ہوئے, کسی بھی شعبے میں سیدھے ہاتھ کو چلے اور اُسکو کِسی رکاوٹ کا سامنا بھی نہ کرنا پڑے۔ اور وہ اپنی ترقی کی منازل بآسانی طے کرتا رہے؟؟؟ اگر یہ ممکن نہیں تو میں اور آپ اِسکو ممکن  بنا سکتے ہیں۔ ہمیں اس بات کا عہد کرنا ہوگا کہ ہم دنیا کے جس جس شعبے میں بھی اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں, ہمیشہ سیدھی راہ ہی چلیں گے۔ اور اگر ایسا ممکن نہیں تو کم از کم سیدھے ہاتھ چلنے والوں کا ساتھ دیں گے اور اُنکے لئے کوئی رُکاوٹ کھڑی نہیں ہونے دینگے۔۔۔

کچھ یادیں




ہمارے سکول کے قریب ہی مجاہدہ اکیڈمی کے نام سے ایک اکیڈمی تھی جہاں خواتین کو مختلف کورسِس کروائے جاتے تھے۔ اس اکیڈمی میں بیشتر تعداد بی۔ایڈ کرنے والی بچیوں۔۔۔ اوہ۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ خواتین کی ہوتی تھی۔ کچھ یاد ہو نہ ہو یہ اچھی طرح یاد ہے کہ بی۔ایڈ کی یہ طلبات ہر سال ہمارے سکول تشریف لاتیں اور یہاں انکو کسی کلاس کا ایک پیریڈ لینا ہوتا تھا۔ کچھ تھانیدار نما حضرات‘ بغلوں میں فائیلیں دُبائے کلاس میں تشریف لاتے اور سب سے پیچھے, جہاں نالائقوں کے ٹولوں کی محفل جما کرتی تھی آ کر بیٹھ جاتے۔ کچھ دیر ان بچیوں کو۔۔۔ سوری۔۔۔ ان طلبات کو گُھور گُھور کر دیکھتے رہتے (اس تکنے کے عمل کی تفصیل بتانے سے میں قاصر ہوں)۔ پھر اپنی فائلوں میں کچھ لکھنے لگتے گویا کوئی جج کسی وکیل کے دلائل سُن کر اپنے سامنے موجود فائل پر کچھ لکھ رہا ہو۔۔۔ خیر پھر ایک دوسرے کے کانوں میں کھُسر پھُسر کرنے لگتے اور آخر کار جس خاموشی سے آئے تھے اُسی خاموشی سے چلے جاتے۔۔۔ پوری کلاس سے ایک ٹھنڈی آہ بھرنے کی آواز اُبھرتی جس میں سب سے زیادہ اونچی آواز انہی ملزموں کی ہوتی تھی جنکا مقدمہ پیش کیا جارہا ہوتا تھا۔ ویسے کیا مزے کی بات ہے کہ ملزم بھی خود اور اپنی وکالت بھی خود ہی۔۔۔
اوہ۔۔۔ یہ بتانا تو بھول ہی گیا کہ یہ وہ سکول ہے جہاں سے ہم نے میٹرک میں پاس ہونے کا عظیم کارنامہ مَر مَر کر اور سِسکتے سِسکتے سرانجام دیا تھا۔
ایک دن ہم حساب کا بورنگ پیریڈ لے رہے تھے۔۔۔ نہیں۔۔۔ بلکہ اُستادِ محترم زبردستی دے رہے تھے۔ کہ اتنے میں ایک کلرک جماعت میں داخل ہوا‘ اُستاد جی کے قریب آکر کچھ کہا اور چلا گیا۔ سَر نے ڈائیز پر کھُلی کتاب کو بند کر دیا۔۔۔ جو ہم سب کے دِلوں کیلئے باعث مُسرت اور باعثِ سکون تھا۔ پھر سَر مُسکراتے ہوئے‘ کچھ شرمیلے سے انداز میں بولے کہ لو بھئی مجاہدین آرہے ہیں۔ ہم حیران ہوئے کہ مجاہدین کون؟ تو جنابِ والا نے بتایا کہ ارے بھئی۔۔۔ مجاہدہ اکیڈمی کی پیداوار مجاہدین ہی کہلائے گی نا۔۔۔ اُستاد محترم کی اِس بات سے پوری کلاس قہقہوں سے گونج اُٹھی۔۔۔ دراصل زیادہ خوشی سَر کے کلاس سے جانے کی تھی۔ پوری کلاس میں ہُو۔۔۔ ہا۔۔۔ ہُو۔۔۔ ہا۔۔۔ کی آوازیں گونجنے لگی۔ ہماری تو گویا عید ہو جاتی تھی اِن مجاہدین کے آنے پر۔۔۔ اصل خوشی تو پڑھائی سے چھٹکارے کی ہوتی تھی۔
کچھ ہی دیر میں ایک باجی کلاس میں تشریف لے آئیں۔۔۔ ہماری تو خوشی کی انتہا نہ تھی۔۔۔ خوب نعرے لگا کر مجاہدہ باجی کو خوش آمدید کہا۔ آغاز میں تو میڈم صاحبہ نے بہت رُعب جھاڑنے کی کوشش کی گویا یوں معلوم ہوتا تھا کہ کسی نے مشورہ دیا ہو کہ کلاس کو جاتے ہی کنٹرول کرلینا ورنہ بعد میں قابو نہیں آئے گی۔ لیکن ہم بھلا اُنکو استادی کیسے کرنے دے سکتے تھے۔۔۔ آخرکار کافی دیر کی تگ و دو کے بعد باجی جی ہمیں خاموش کروانے میں کامیاب ہوہی گئیں۔۔۔ اتنے میں کلاس کے باہر سے ایک اور ماڈل نما مجاہدہ کا گزر ہوا۔۔۔ ماڈل نما اِسلئے کیونکہ وہ طالبہ کم اور ماڈل زیادہ دِکھائی دیتی تھیں۔ اُنکو دیکھتے ہی ہماری کلاس میں موجود باجی نے آواز کس دی۔۔۔ سلمااااء!!!! سلماء جی بھی فوراً اندر آگئیں۔۔۔ دونوں باجیاں ایک دوسرے کی جانب بڑھیں اور  اپنے روائیتی انداز میں ایک دوسرے سے اپنے منہ بچاتے ہوئے اُوومچہ اُوومچہ کرتے ہوئے پیار کرنے لگی۔ یوں محسوس ہو رہا تھا گویا ہم نے پچپن کی بِچھڑی دو بہنوں کو آپس میں ملوا دیا ہو۔ ایسے موقع پر جیسی خوشی ملوانے والے کو ہوتی ہے ویسی ہی ہمیں بھی ہو رہی تھی۔ آخرکار یہ منظر دیکھتے ہوئے ہم بھی دو لڑکے اپنی نشستوں سے اُٹھے اور ایک دوسرے کو گلے لگا لیا اور زوردار پچک پچک کر کے ایک دوسرے کو پیار دئیے لیکن اس دوران ہم دونوں کے منہ کے درمیان کوئی پورے ایک ڈیڑھ فُٹ کا فاصلہ تھا۔ یہ دیکھنا تھا کہ باجیاں بھی خوب کھِلکھِلا کر ہنس پڑیں اور پوری کلاس قہقہوں سے گونج اُٹھی۔۔۔ ہمیں تو ایسا محسوس ہوا گویا آج ہمیں پرائیڈ آف دی پَرفارمنس کا ایوارڈ مل گیا ہو۔ خیر ہم دونوں ہاتھ بلکہ دونوں بازو ہوا میں لہرا لہرا کر دوستوں کی داد کا شکریہ ادا کرنے لگے۔

جلا دو



ہم شہر کی ایک مصروف ترین شاہراہ پر سفر کررہے تھے۔۔۔ خوش گوار موسم سے لطف اندوز ہونے کے ساتھ ساتھ خوش گپیوں میں بھی مصروف تھے۔۔۔ اتنے میں ہم ایک چوک پر پہنچے۔۔۔ یہاں ٹریفک صبح شام چاروں جانب سے رواں دواں رہتی ہے۔۔۔  سرخ بتی بھی ہمارا ہی انتظار کر رہی تھی۔۔۔ ابھی زیبرا کراسنگ سے چند فُٹ کے فاصلے پر تھے کہ بتی محترمہ روشن ہوگئیں۔۔۔ تمام گاڑیاں رُک گئی۔۔۔ مگر میں جن محترم کے ساتھ سفر کر رہا تھا‘ اُنہوں نے دائیں بائیں دیکھا اور چل پڑے۔۔۔ میں نے اُنکے اس عمل پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے نہ رُکنے کی وجہ پوچھی۔۔۔ اِس سے پہلے کہ میں مزید کچھ کہتااُنہوں نے میری طرف دیکھا اورسنجیدگی سے کہنے لگے

’’اقبال نے فرمایا تھا:

جس کھیت سے دہکاں کو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے  ہر خوشۂِ گندم  کو  جلا دو‘‘


میں آرہی ہوں

سب کہتے ہیں کہ میں بہت بُری اور ظالم ہوں‘ لیکن انکے کہنے سے مجھ پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ میرا اصول ہے کہ کبھی کسی سے دوستی نہیں کرتی۔ نہ تو کسی کی مجھ سے دوستی کام آتی ہے اور نہ دشمنی۔ مجھے تو بس اپنے کام سے غرض ہے۔ سب کے دلوں میں میری ہیبت رہتی ہے۔ ہر کوئی مجھ سے دور بھاگتا ہے۔ جب لوگوں کو کسی جگہ میرے پہنچ جانے کا خدشہ ہو تو فوراً وہاں سے بھاگ نکلتے ہیں۔ لیکن اس سب کے باوجود میں ہمیشہ اپنے مقاصد میں کامیاب ہوتی ہوں۔ جس کے پیچھے پڑ جاتی ہوں تو بس اُسے حاصل کر کے ہی رہتی ہوں۔ شائید خداترسی جیسی چیز سے اللہ نے نوازا ہی نہیں ہے مجھے۔ یہی وجہ ہے کہ کبھی کسی پر ترس بھی نہیں آتا اور لوگ مجھ سے ڈرتے پھرتے ہیں۔۔۔
 سب میرے ہی پیچھے پڑے رہتے ہیں۔۔۔ شائید انہیں معلوم نہیں کہ میں اپنی من چاہی نہیں کرسکتی۔۔۔ میرے اوپر بھی کسی کا آرڈر چلتا ہے۔ جو حکم ملتا ہے وہ بس مجھے کرنا ہوتا ہے اور میں اُسے کرنے میں کبھی بھی دیر نہیں کرتی۔ آج تک کوئی ایسا مِشن نہیں جو مجھے دیا گیا ہو اور میں نے مکمل نہ کیا ہو۔۔۔
اکثر لوگ میرے مستقل ٹھکانے کی بات کرتے ہیں۔۔۔ ہاہاہا۔۔۔ میرا تو کوئی ایک ٹھکانا ہی نہیں۔۔۔ جہاں کام ہو بس وہیں پہنچ جاتی ہوں۔۔۔ میرے لئے کونسا کام مشکل ہے۔۔۔۔
آج مجھے میرے سرکار سے ایک اور حکم موصول ہوا۔۔۔ میرے لئے یہ کوئی بڑی بات نہیں تھی۔ میں تو ایسے کارنامے ہر آئے دن سرانجام دیتی رہتی ہوں۔ آج کے اس نئے مشن پر پورا اُترنے کیلئے مجھے چند افراد سے ملاقات کرنی تھی اور ان افراد کا تعلق مختلف پیشوں سے تھا۔ انکے لئے کسی ایک عمر یا عہدے کا ہونا ضروری نہیں ۔ میں چاہتی تو ایک ایک کر کے سب سے مِل آتی لیکن مجھے حکم یہی ملا کہ ان سب کو اِکٹھے بلاؤں اور ایک ہی ملاقات کروں۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ ملنا کونسے ٹھکانے پر ہے؟ لیکن اسکا بندوبست بھی میرے آقا نے کر دیا۔ ٹھکانا متعین کر لیا گیا۔۔۔ اب تو کام اور بھی آسان ہو چکا تھا۔ میں اب سب کو یہاں بلانا چاہتی تھی مگر چونکہ یہ ٹھکانا شہر سے کچھ فاصلے پر تھا اسلئے سواری کا بندوبست بھی کرنا تھا۔ خیر وہ بھی کر دیا گیا۔۔۔ لیکن شرط یہ تھی کہ اب ڈرائیور کو بھی مجھ سے ملنے آنا ہوگا اور سب کے ساتھ ہی وہ بھی مجھ سے ملاقات کرے گا۔ کون تھا جو میری شرط سے انکار کرسکتا؟ بلکل ویسا ہی ہونا تھا جیسا منصوبہ بنایا گیا اور ہوا بھی ایسے ہی۔۔۔ اب وہ سب سواری پر سوار ہوئے اور منزل کی جانب بڑھنے لگے۔۔۔ کچھ دیر سفر کرنے کے بعد جب منزل قریب پہنچی تو ڈرائیور نے ہوشیاری دکھانے کی کوشش کی۔ ڈرائیور سواری کو شہر کے مصروف ترین سٹاپ پر لے جانا چاہتا تھا۔ شائید وہ بھی مجھ سے ڈر رہا تھا آج۔ لیکن مجھ سے کون ہوشیاری کر سکتا ہے۔۔۔ میں نے اُسی وقت اُسے سواری کا رُخ اپنے ٹھکانے کی جانب کرنے کا حکم دیا۔ اب وہ ٹھکانے کی جانب بڑھنے لگا اور میں اُسے راستہ بتا رہی تھی آخرکار وہ منتخب کردہ مقام تک پہنچ گیا۔ جہاں آج ہمیں ملاقات کرنی تھی۔۔۔ اب میر آج کا یہ مشن بھی اپنے تکمیلی مراحل میں پہنچ گیا۔ جیسے ہی وہ یہاں پہنچے‘ میں نے آؤ دیکھا نا تاؤ اور اُن سب کو اپنے سینے سے لگا لیا۔۔۔ ہاہاہا۔۔۔ میرا کام تمام ہو گیا اور ایک اور مِشن مکمل۔۔۔۔ اب وہ واپس کبھی نا جانے پائیں گے۔۔۔ یہ اُنکا آخری سفر تھا۔۔۔
میں ہوں موت اور اِن ایک سو باون (152) افراد کو میں نے کراچی سے مارگلہ کی پہاڑیوں پر بُلایا تھا۔۔۔ اب آپ بھی تیاری کیجئیے۔۔۔ جلد ہی آپ کے پاس بھی آرہی ہوں۔۔۔

مسلم شہزادیاں


مولانا صاحب اِک غیر مسلم دیس میں موجود مسلمانوں کے ایک مجمع سے مخاطب تھے۔ اِس مجمع میں بہت سے غیر مسلم بھی موجود تھے۔ مولانا صاحب اسلام میں عورت کی عزت و تعظیم کے موضوع پر گفتگو فرما رہے تھے کہ اچانک مجمع سے اِک شخص اُٹھا اور مولانا صاحب سے مخاطب ہو کر کہنے لگا کہ آپ لوگ عورت کی قدرنہیں کرتے۔۔۔۔ آپ اپنی عورتوں کو زبردستی پردہ کرواتے ہیں۔۔۔ عورت کی آزادی چھین لیتے ہیں۔۔۔ آسکو قید کر کے رکھ دیتے ہیں۔۔۔ آسکو باہر نہیں نکلنے دیتے اور نہ ہی خود کمانے دیتے ہیں۔۔۔
مولانا صاحب خاموشی سے سُنتے رہے اور اُس شخص کے چُپ ہونے پر بولے کہ آپ اپنی لیڈی ڈیانا سے کیوں کام نہیں کرواتے؟ وہ شخص مولانا کے سوال پر نہایت حیران ہوا اور فوراً بولا کہ وہ تو ہماری پرنسس ہیں۔ ہم اُن سے بھلا کیسے کام کروا سکتے ہیں؟ وہ کیوں کوئی کام کریں؟ مولانا صاحب نے جواب دیا کہ بات یہ ہے کہ آپکی صرف ایک شہزادی ہے جبکہ مسلمانوں کے ہر گھر میں ملکائیں اور شہزادیاں بیٹھی ہیں۔
کاش آج میرے نبی کی پوری اُمت کے قلوب میں اِس بات کا احساس پیدا ہو جائے اور میرے تمام مسلمان بہن بھائیوں کی سمجھ میں عورت کا وہ مقام آجائے جو اسلام نے اُسکو دیا ہے۔ اگر آج مسلمانوں کے ایمان پختا ہوتے اور وہ اپنے فرائض سے غافل نہ ہوئے ہوتے تو کِس کی جُرأت تھی کہ وہ مسلمانوں کی اِن شہزادیوں کی جانب میلی آنکھ سے دیکھتا؟ یورپ میں تو غیر مسلم قوتیں مسلمان عورت کے آنچل کو برداشت نہیں کر سکیں مگر ڈوب مرنے کا مقام تو یہ ہے کہ آج اِس برائے نام اِسلامی ریاست میں ایسی عورتوں کی تعداد میں دِن بہ دِن اضافہ ہوا جارہا ہے جو خود اپنے اِس آنچل سے تنگ ہیں۔ اِسلام کے اِن احکامات پر عمل کرنا اب اِنکے لئے کسی غلامی سے کم نہیں۔ غرض اِس سے زیادہ اور افسوس کی کیا بات ہوگی کہ آج تو خود مسلمان عورت ہی اپنا مقام بھُلا بیٹھی۔۔۔ نجانے کل کے دِن یہ عورت اماں عائیشہؓ کے سامنے کس منہ کے ساتھ کھڑی ہوگی۔۔۔ اور اُنکو کیا جواب دے گی کہ آپ کی اِس وراژت کو ہم نے کیا خوب سنبھالا؟؟؟
آج ہماری قوم کی اِن شہزادیوں کی لبوں پر وہی اعتراضات ہیں جو اُس انگریز کے مسلمانوں سے تھے۔ سوچنا اِس بات کا ہے کہ اُس انگریز کے اعتراضات تو مولانا صاحب نے نہایت مؤثر انداز میں دور کر دئیے تھے مگر اب یہاں کون مولانا صاحب کی جگہ ہمارے دیس کی اِن شہزادیوں کے اعتراضات کو دور کرے گا؟؟؟




ہم کون ہیں  کیا ہیں   بخدا  یاد  نہیں

اپنے اسلاف کی کوئی بھی ادا  یاد نہیں


ہیں اگر یاد تو کفر کے ترانے اب تک

ہاں نہیں یاد  تو  کعبہ کی سدا یاد نہیں


بنتِ ہوا  کو نچاتے ہیں  سرِ محفل اب

کتنے سنگ دل ہیں کہ رسمِ حیا یاد نہیں


آج اپنی زلت کا سبب یہ ہے  شاید
ہم کو سب یاد ہے بس خدا یاد نہیں

بڑے میاں




بڑے میاں سے جب بھی مخاطب ہو تو جواباً ہمیشہ اِک نئی فلاسفی سُننے کو ملتی ہے۔ ہے تو یہ اکیسویں صدی مگر جنابِ والا کسی پُرانے زمانے کی مخلوق معلوم ہوتے ہیں۔ کوئی ایک بات ہو تو بتاؤں نا اِنکی تو ہر ہر ادا ہی نرالی ہے۔ میں تو آج تک اِن حضرت کی فطرت کو  سمجھ ہی نہ پایا۔ دراصل اناپرستی اور خودداری جیسے خطرناک امراض میں مبتلا ہیں یہ۔ میں تو کہتا ہوں کہ اللہ ہر کسی کی ان امراض کے جراثیموں سے حفاظت فرمائے۔ جسکو اِن بیماریوں کا وائرس لگ جائے۔۔۔ اوئے ہوئے ہوئے۔۔۔ پھر تو سمجھو کہ پوری زندگی گئی اُس شخص کی۔۔۔ بھوکا مرتا ہے ایسا شخص۔۔۔ کیا فائدہ ہے ایسی زندگی کا؟ ہاں البتہ بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جنکو اِن امراض نے جوانی میں ہی آلپٹا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اُنہوں نے اپنی گزری ہوئی زندگی سے سبق سیکھ لیا اور پھر ’’راہِ راست‘‘ پر آگئے۔ مگر اِک ہمارے بھائی صاحب ہیں۔۔۔ یوں معلوم ہوتا ہے گویا اِنکے دماغ پر دیمک نے حملہ کیا ہو اور ماسوا بھوسے کے اب انکے دماغ میں کچھ نہیں۔ ارے اب بچے تو یہ رہے نہیں‘ بڑے ہوگئے ہیں۔۔۔ بہت سی ذمہ داریاں ہیں اب اِنکے سر پر اور کوئی ذریعہءِمعاش بھی تو اختیار کرنا ہے۔۔۔ ابھی پچھلے دنوں کی ہی بات ہے کہ والدین نے بڑے ترلے کر کے ایک سفارش کا بندوبست کیا۔ آجکل کے دور میں ایسے گھر بیٹھے کوئی نوکری تھوڑی ہی ملتی ہے؟ کچھ تو ہاتھ پاؤں مارنے پڑتے ہیں نا۔ مگر بڑے میاں کو تو شفارش منظور ہی نہیں۔۔۔ کہتے ہیں کہ ناجائز ہے۔۔۔  ارے پگلے کو کوئی تو سمجھائے کہ یہ کتابی باتیں کتابوں میں ہی بھلی لگتی ہیں۔ سفارش عام آدمی تھوڑی ہی کروا سکتا ہے؟ اور پھر یہ کونسی سفارش ہے؟ یہ تو گزارش ہوتی ہے جو ہم کسی سے کرتے ہیں اور وہ آگے کسی اور سے کرتا ہے۔۔۔ اِنکو تو فخر محسوس کرنا چاہیئے کہ کوئی اِنکے لئے گزارش کر رہا ہے۔ اِس سے اِنکی عزت میں اضافہ ہی تو ہوگا کونسا کوئی نقصان ہے؟ یہ کتابوں میں لکھنے والے‘ بڑے بڑے صحافی‘ عالم‘ پروفیسرز‘ یہ سب آج جن اونچے اونچے عہدوں پر فائز ہیں سفارش کی ہی بدولت تو ہیں ورنہ یہاں کون کسی کو گھاس ڈالتا ہے؟ خیر۔۔۔ ہم نے بھی بھائی صاحب کی ایک نہ سُنی؟ اور وہی کیا جو اِنکے حق میں بہتر تھا یعنی گزارش کروا ڈالی۔۔۔ اب اِنکو ملک کے ایک اچھے سرکاری ادارے سے ٹیسٹ کیلئے کال آگئی۔ بھائی نے مقررہ دِن جا کر ٹیسٹ دے دیا۔ جناب کو پکی اُمید تھی کہ میرا ٹیسٹ سب سے منفرد ہوگا اور وہ مجھے ضرور سلیکٹ کریں گے۔ آخر بھائی کس کے ہیں؟ ہوا بھی یوں ہی کہ ٹیسٹ دینے کے صرف دو دن بعد ہی بھائی کو کال آگئی کہ جناب ہم آپکی ٹیسٹ میں کارگردگی سے بہت متاثر ہوئے ہیں۔ آپ برائے مہربانی کل تشریف لے آئیے۔ ہمارے باس آپسے ملاقات کرنا چاہتا ہیں۔

اگلے دِن بڑے میاں منہ لٹکائے واپس تشریف لے آئے۔ تفتیش کرنے پر معلوم ہوا کہ ادارے کے اِک معمولی افسر کو اپنے کام کیلئے کوئی کلرک درکار تھا۔ مگر جناب کے بھی کیا کہنے۔۔۔ کہتے ہیں کہ اتنا پڑھ لکھ کر ہم نے کلرک ہی بننا ہے کیا؟ لہٰذا وہاں انکار کر آئے کہ ہمیں یہ نوکری منظور نہیں۔۔۔ ارے اتنے اچھے ادارے میں روز روز نوکریاں کہاں ملتی ہیں؟ اپنا نہیں تو والدین کا ہی کچھ خیال کر لیتے۔ اتنی تو ایک مزدور کی ماہانہ آمدنی نہیں ہوتی جتنے بھیا کے تعلیمی اخراجات۔۔۔ اتنے اچھے اور عمدہ تعلیمی اداروں میں پڑھوایا مگر بڑے میاں کو تو کسی بات کا احساس ہی نہیں۔ کلرک تھے تو کیا؟ ہمیں تو پیسے سے غرض ہے خواہ جہاں سے بھی آئے۔۔۔ سرکار کی نوکری تھی اور پھر پکی بھی۔۔۔ پورے خاندان میں ناک کٹوا کر رکھ دی۔ سب کیا کہیں گے کہ اتنے اونچے اونچے تعلیمی اداروں سے پڑھ کر اب ملک کے اتنے نامور ادارے میں اتنی ’’عمدہ‘‘ نوکری ٹھکرا دی۔۔۔  اب پرائیویٹ کی در بدر ٹھوکریں کھائیں گے نا تو سب سمجھ آجائے گی؟ پرائیویٹ اداروں میں تو جھوٹ, فراڈ, رشوت اور مالک کی چپڑوسی چلتی ہے بس اور ہمارے بڑے میاں تو اِن تمام خوبیوں سے پاک ہیں۔۔۔ مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آتی۔۔۔ اب آپ ہی بتائیے کہ کیا بنے گا بڑے میاں کا؟؟؟

خُدارا اِس بات کو سمجھئیے

جب پہلی پوسٹ پبلش کی تو بہت سے خواتین و حضرات نے عورتوں کے نماز پڑھنے کے طریقے کو بھی پبلش کرنے کی گزارش کی۔ اِس میں کوئی شک نہیں کی مرد حضرات تو مساجد میں نماز پڑھ لیتے ہیں اور جسکی نماز درست نہیں ہوتی وہ بہت جلد اِس ماحول میں جا کر سیکھ لیتا ہے۔ مگر سارا مسئلہ تو میری ماؤں بہنوں کا ہے کہ وہ ایسی مجالِس میں نہیں جاسکتی جہاں اسلام کی تعلیم دی جائے اور نہ ہی آجکل کے مردوں کو یہ شوق رہا ہے کہ اُنکے گھر کی مستورات اسلام کو سیکھیں۔ اگر اِس اُمت کی صرف مستورات دین پر عمل کرنے لگیں تو یہ پوری اُمت بآسانی راہِ راست پر آسکتی ہے کیونکہ ایک مرد کیلئے پورے گھرانے کو سُدھارنا اتنا آسان نہیں جتنا کہ ایک عورت کیلئے۔ میری تمام بھائیوں سے گزارش ہے کہخود بھی دین کو سیکھنے کی جستجو پیدا کریں اور اپنے گھر کی مستورات کو بھی سکھائیں۔ اکثر محلوں میں یا کچھ مدارس میں عورتوں کو باقاعدہ اسلام کی تعلیمات دی جاتی ہیں۔ ہمیں چاہیئے کہ ایسی جگہوں کو تالاش کر کے اپنے گھر کی عورتوں کو بھی دین سیکھنے بھیجیں۔ کل کو ہمیں بھی ﷲ کے سامنے اپنی ماںبہین‘ بیوی اور بیٹی کے بارے میں جواب دہ ہونا ہے۔ اِسکے علاوہ میری مستورات سے بھی گزارش ہے کہ برائے مہربانی اپنے اوپر رہم کرتے ہوئے خود بھی اپنے اندر دین سیکھنے کی جستجو پیدا کریں۔ آج مسلمانوں کے زوال کی وجہ اِنکی دین سے دوری ہے۔ جب تک مسلمان دینِ اسلام پر عمل پیرا رہے تو اﷲ انکو کامیابیوں سے نوازتے رہے۔ کہا جاتا ہے کہ اگر پچاس فیصد اُمت صرف نماز پر آجائے تو مسلمانوں کا زوال رُک جائے گا اور جب پچاس سے ایک فیصد بھی اضافہ ہوگا تو مسلمانوں کے عروج کی ابتدا ہوگی۔
عورتوں کے نماز کے طریقے کو پبلش کرنے میں سارا مسئلہ عورت کے چہرے کا دِکھانا تھا۔ میں نہ تو کوئی عالم ہوں نہ مفتی کہ خود سے ارکانِ اسلام پر بحض کروں۔ لہٰذا میں کچھ ایسے لنکس کی تلاش میں تھا کہ جس میں  عورت کی صورت نہ دکھائی گئی ہو۔ یہ وہ لِنک ہے جہاں سے آپ عورت کے نماز پڑھنے کا طریقہ ڈاؤن لوڈ کر سکتےہیں:
عورت کی نماز کی تصاویر دیکھنے کیلئے یہ لِنک وزٹ کریں:
بہتر تو یہ ہے کہ آپ انٹرنیٹ پر اسلام سیکھنے کی زیادہ جستجو مت کریں بلکہ عملی طور پر کوشش کریں اور علماءِاکرام سے رابطہ رکھیں کیونکہ اِس میں زیادہ نفع ہے۔ کوئی شخص بیمار ہو تو فوراً ڈاکٹرز کے پاس لے جایا جاتا ہے۔۔۔ گھر بنوانا ہو تو ٹھیکیدار یا مزدور سے رابطہ کیا جاتا ہے۔۔۔ گاڑی خراب ہونے کی صورت میں ورکشاپ کے چکر لگائے جاتے ہیں۔۔۔ تعلیم حاصل کرنے کیلئے سکولوں کا رُخ کیا جاتا ہے۔۔۔ غرض زندگی کے ہر شعبے میں اُسکے ماہرین سے روابط اختیارکئے جاتے ہیں مگر افسوس سد افسوس کہ اسلام کے معاملات میں کبھی کوئی علماء سے رابطہ نہیں کرتا۔ اور تو اور خود ہی اپنے آپکو اسلام کا ماہر سمجھ کر فیصلے کرنے لگ جاتا ہے۔ اگر اتنا علم اور عقل ہے ہمارے پاس تو ہم ڈاکٹر کے پاس کیوں جاتے ہیں؟ خود علاج کیوں نہیں کر لیتے؟؟؟ گھر بنوانا ہے تو خود بنائیں۔۔۔ گاڑی خراب ہو گئی ہے تو خود کیوں نہیں ٹھیک کر لیتے؟؟؟ ارے ہم نے تو صرف اتنا فیصلہ کرنا ہے کہ کونسا ڈاکٹر اچھا ہے اور کونسا نہیں؟ یہ کہنا کوئی عقلمندی کی بات نہیں کہ اب تو کوئی اچھا ڈاکٹر ہی نہیں رہا۔ اب میں اپنا علاج خود کروں گا۔ نہیں بلکہ اچھے اور بُرے لوگ تو ہر جگہ موجود ہیں چاہے وہ زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھتے ہوں۔ ہمارا کام صرف اِن میں فرق کرنا ہے۔ خُدارا اِس بات کو سمجھئیے!!!

مزاح کا رَس

ہم اِس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ آجکل کی نوجوان نسل کامیڈی ڈرامے اور پروگرامز دیکھنے کی زیادہ شوقین ہے۔ اگر کوئی مزاحیہ تحریر نظر سے گزر جائے تو پڑھ لیں گے ورنہ سنجیدہ تحاریر کو تو دور سے ہی خدا حافظ کہہ دیتے ہیں۔ مزہب میں تو ہمیں کوئی خاص دِلچسبی  ہی نہیں اور نہ ہی اِسلام کے لمبے چوڑے لیکچر سُننا ہمارے بس کی بات ہے۔ جو اُستاد ہمیں ہمارے اسلاف کے دو چار واقعات سُنا دیں وہ بُرے لگنے لگتے ہیں۔ کوئی سنجیدہ بات کرنا تو درکنار ہمیں تو کوئی سنجیدہ بات سُننا بھی گوارہ نہیں۔ بس ایک بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ یہ تین تین گھنٹوں پر مُشتمل سنجیدہ مُوویز ہم کیسے اتنے شوق سے دیکھ لیتے ہیں؟
شاید اِسکی وجہ ان فلموں میں موجود رومانس ہے جو ہمارے والدین‘ اُستادوں اور عُلماء حضرات کے لیکچرز میں نہیں ہوتا۔ ویسے اگر یہ اہم نقطہ ہمارے محترم اُستادوں کی سمجھ میں آ جائے تو پھر شاید تعلیمی اداروں میں رومانس کو پڑھائی کا باقائدہ حصہ قرار دے دیا جائے۔ اِسکا مثبت پہلو یہ ہوگا کہ جو بہانے چُھٹی کرنے اور لیٹ آنے پر طلباء کی جانب سے اُستادوں کو سننا پڑھتے تھے‘ اُن میں خاطر خواہ کمی محسوس کی جائے گی۔ تعلیمی اداروں میں کلاسیں بھر جائیں گی اور محکمہ تعلیم کو ناقابلِ یقین بہتر نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مگر افسوس کہ اتنی اہم تجویز آج سے پہلے کسی اور کے دماغ میں کیوں نہ آئی؟ ویسے اگر آئی بھی ہو گی تو کسی بےچارے طالبعلم کے ہی دماغ میں آئی ہوگی اور اُس نے یہ موقع ہمارے لئے چھوڑ دیا ہوگا۔

لیکن اِس اہم نقطہ کا ایک منفی پہلوبھی ہوگا اور وہ یہ کہ روزمرہ کی زندگی میں اِن تعلیمی کارخانوں سے ہمیں جو مصنوعات ملتی ہیں اُنکی نوعیت کچھ تبدیل ہو جائے گی۔  عموماً اِن کارخانوں کی مصنوعات میں ڈاکٹرز‘ اِنجینئیرز اور سائینسدان شامل ہوتے ہیں مگر اِس صورت حال میں اِن کارخانوں کی پیداوار "جان جان رامبو" ہوگی۔ جسکا اثر ہمارے معاشرے پر یہ ہوگا کہ ہمیں ڈاکٹرز‘ انجینئیرز اور سائینسدان حضرات کی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

خیر یہ تو تھا ہمارا خیالی پلاؤجو نہ جانے کہاں سے درمیان میں آ ٹپکا۔ بات تو ہو رہی تھی نوجوانوں کی۔ اوہو۔ ۔ ۔ اب خیالی پلاؤ کا نام سُن کر بیشتر طلباء کے عجیب و غریب بلکہ دِلچسب و عجیب منہ بن گئے ہوں گے۔ چلو کچھ نہیں ہوتا مشورہ دینا ہمارا کام تھا۔ اب آپکا کام اسکو عملی شکل دینا ہے۔ ہم نے تو وہ کر دیا جو ہمارے بس میں تھا۔ اب آپ وہ کیجئیے جو آپ کے بس میں ہے۔ ۔ ۔ ویسے طلباء حضرات سے گزارش ہے کہ ہماری یہ تجویز کل سکول یا کالج جاتے ہی اپنے اُستادِ محترم کو دینے سے پہلے اُنکا موڈ بھی دیکھ لیجئیے گا۔ ورنہ بعد میں آپکے ساتھ اُستادِ محترم کی جانب سے کئے جانے والے رومانس کے ہم زمہ دار نہیں ہوں گے۔ ہم آپکو نصیحت کرتے ہیں کہ اپنی عزت اپنے ہاتھ میں ہی رکھئیے گا۔ اِسی میں آپکی بہتری ہے۔

ہم ایک مرتبہ پھر اپنے عنوان کی جانب بڑھتے ہیں۔ دراصل آج کی اس تحریر کا مقصد آپکو مطلع کرنا اور نوجوانوں کو خوشخبری دینا تھا کہ ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ آئیندہ اِس بلاگ میں نمک مرچ کے علاوہ اکثر اوقات مزاح کا شیریں رَس بھی شامل کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ ہمارے نوجوان بہین بھائی بھی اس بلاگ کو اکثر وزٹ کرتے رہیں۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اگر ہم نے سنجیدگی کا لباس اوڑھے رکھا تو اِس سادہ سے لباس کو ہمارے جدیدیت پسند دوست احباب دور سے ہی دیکھ کر بھاگ کھڑے ہوں گے۔ مزاح کی مدد سے ہم اپنے لباس کو کچھ فیشن ایبل بنانے کی کوشش کریں گے اور ظاہری سی بات ہے کہ فیشن ایبل لباس میں کپڑا کم استعمال ہوتا ہے جسکی وجہ سے ہم صرف اپنی ستّر کو بمشکل ڈھانپ سکیں گے۔ یوں ہماری بچت بھی ہو جائے گی۔ اوہ بات پھر کہاں سے کہاں نکل پڑی۔ اِس سے پہلے کہ بات پھر کہیں اور نکل جائے‘ کیوں نہ ہم خود ہی نکل جائیں۔ ۔ ۔

لہٰزا اجا زت دیجئیے۔ ۔ ۔ اللہ حافظ


نوجوان کا ایمان




نوجوان نے جو باتیں کیں وہ مجھے آج بھی ایسے ہی یاد ہیں گویا کہ ابھی چند لمحوں پہلے کی بات ہو۔ اُسکی بے چینی‘ بولنے کا انداز اور بات کی مناسبت سے آواز کا اُتراؤ چڑھاؤ غرض سب کچھ اچھی طرح یاد ہے۔ نہ جانے کیوں اُسکی زبان سے نکلا ہوا ہر اِک لفظ میرے دماغ سے نکلنے کا نام ہی نہیں لے رہا ؟؟؟ آئیے نوجوان کی زبانی سُنئیے:

’’ نماز کی عادت تو بچپن سے ہی تھوڑی بہت تھی۔ بلوغت کی عُمر کو پہنچھا تو ﷲ نےمجھ پر یہ احسان کیا کہ ایک عالم کی وساطت سے اسلام کا کچھ علم دیا۔ میں اکثر اِن عالم کو سُننے لگا۔ جب فارغ ہوتا تو گھر بیٹھے اُنکے نصیحت آموز بیانات سُن لیتا جس سے میرے ایمانی درجہ میں دِن بدِن اضافہ ہونے لگا۔

میں بچپن سے ہی بہت حساس‘ نازک اور کمزور دل کا مالک تھا بلکہ ہوں۔ ہر چھوٹی موٹی بات سے ڈر جانا اور چھوٹی چھوٹی باتوں کا نہایت بڑا اثر لینا اب میرے اور میرے گھر والوں کے لئے کوئی بڑی بات نہیں۔ آج اِسی نازک اور حساس لڑکے کو جب ﷲ اور ﷲ کے عزاب سے ڈرایا گیا تو یہ کیوں نہ ڈرتا۔ سو کافی مرتبہ اُن عالم کو سُننے کے بعد میں نے یہ فیصلہ کیا کہ میں اپنی باقی کی زندگی اِنشاءﷲ‘ اسلام کے دئیے ہوئے احکامات کے مطابق گزاروں گا۔ یہ فیصلہ کرنا کوئی مُشکل کام نہ تھا بلکہ افسوس اس بات کا ہے کہ دورِحاضر کے باقی مسلمانوں کی طرح میرے لئے بھی اس فیصلے پر پورا اُترنا کافی مُشکل اَمر ہے۔

روزمرہ کی زندگی میں ہمیں بہت سے ایسے لمحات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو انسان کیلئے جنت کی راہیں ہموار کرتے ہیں یا پھر جہنم کی۔ دن کی پانچ نمازوں کا ادا کرنا نہ کرنا ‘ رشوت اور سود کا لین دین یا ان سے اجتناب ‘ جھوٹ بولنا یا سچ غرض اسلام کے تمام احکمات پر عمل کرنا نہ کرنا ایسے لمحات کی چند مثالیں ہیں۔ ( اِسکی ایک تازہ مثال فیس بُک کا تنازع ہے جو (استغفرﷲ) بہت سے لوگوں کے نزدیک کوئی تنازع نہیں۔) اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسے لمحات میں اکثر جیت شیطان کی ہی ہوتی ہے لیکن پھر بھی میری کوشش اپنے لئے جنت کی راہیں ہموار کرنے کی ہے۔ ہم نے تو وہی کرنا ہے جو ہمارے بَس میں ہے‘ آگے جو ﷲ کو منظور۔ ۔ ۔‘‘

نوجوان جو کرسی کا سہارا لئے بیٹھا تھا‘ اب سہارہ چھوڑتے ہوئے‘ کروٹ بدل کر میری طرف مخاطب ہوا گویا اب وہ میری زیادہ توجہ چاہتا تھا۔ اُسکے ماتھے پر اِک عجیب بےچینی کے آثار تھے۔

’’ بھیا ! ابھی حال ہی میں میرے بھائی کا رشتہ طہ ہوا ہے اور گھر میں اکثر اسی کا زکر چلتا رہتا ہے۔ اکثر شادی میں کی جانے والی رسومات کا زکر کرنے پر میں اُنکو سمجھانےکی کوشش کرتا ہوں کہ یہ سب تو ہندُوانہ رسومات ہیں اور اسلام میں انکا کوئی تصور نہیں۔ مگر اسکے جواب میں مجھے جو سُننے کو ملتا ہے وہ نہ صرف نہاٰیت دُکھ دہ ہوتا ہے بلکہ ایک انسان کا دِل توڑنے کے لئے کافی ہے۔ ابھی کل ہی کی بات ہے کہ میں گھر میں داخل ہوا تو اِیک نئی بات سُننے کو ملی۔ سب بھائی کی منگنی کا پروگرام بنا رہے تھے۔ مجھے یہ سب سن کر سخت افسوس ہوا اور بالآخر میں بول پڑا کہ اسلام نے ہمیں نکاہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ اسلام میں منگنی کا کوئی تصور نہیں۔ ہمیشہ کی طرح آج بھی ویسا ہی جواب ملا کہ ہاں بابا! ہر بات میں تمہارے نت نئے قانون نکل آتے ہیں۔ ہمارے آباؤاجداد یہی سب کچھ کرتے آرہے ہیں اور وہ ھم سے زیادہ جانتے تھے اسلام کے بارے میں۔ ۔ ۔

بھیا ! اب آپ ہی بتائیں کہ میں انکو کیسے سمجھاؤں کہ یہ قانون میرے نہیں اسلام کے ہیں۔ کیا میرا اور انکا اسلام ایک ہی نہیں ؟؟؟ یا میرے اور انکے اسلام میں کوئی (نعوزُباﷲ) فرق ہے کیا ؟؟؟ بولیں نا بھیا !!! ‘‘

نوجوان کی آنکھیں نم تھیں اور اب وہ میرے جواب کا منتظر تھا مگر اُس کی اُمید کے برعکس میں بلکل خاموش تھا۔ کمرہ میں ایک لمحہ کیلئے مکمل سُناٹا چھا گیا۔ میری طرف سے کوئی جواب نہ پا کر اُسنے دوبارہ کرسی سے سہارہ لیا۔ اب وہ کافی پرسکون اور پُرعزم لگ رہا تھا۔ نوجوان نے اِک لمبی آہ بھری اور بولا:

’’ میرے نبی کی ہر بات بھی تو سچی ہے۔ ۔ ۔ آپ نے فرمایا تھا (جسکا مفہوم ہے) کہ ایک دِن آئے گا جب میرا لایا ہوا دین اجنبی ہو جائے گا۔ ۔ ۔ لیکن آپ نے یہ بھی فرمایا تھا (جسکا مفہوم ہے) کہ اُس وقت جو میری ایک سنت کو زندہ کرے گا اُسکو سَتّر(70) شہیدوں کے برابر اَجر ملے گا۔  آپ کی ایک اور حدیث کا مفہوم ہے کہ’’ جب بُرائی کو ہوتا ہوا دیکھو تو اُسکو ہاتھ سے روکو ‘ اگر اتنا ایمان نہ ہو تو زبان سے بُرا کہو اور اگر اتنا بھی ایمان نہیں تو دِل میں ہی بُرا سمجھو‘‘۔ ۔ ۔ خیر ہم بھی کسی نہ کسی درجے میں آ ہی جائینگے۔‘‘

یہ کہہ کر نوجوان اُٹھا اور چل دیا۔ میری نظریں اُسکے اُٹھتے قدموں پر جمی ہوئی تھیں اور دماغ ان سوچوں میں گُم تھا کہ جسکو نوجوان اپنا محسن اور بڑا سمجھ کر آیا تھا‘ وہ تو خود اسکا شاگرد نکلا کیونکہ آج جو سبق اس نوجوان نے مجھے سکھایا ‘ وہ شاید ہی کوئی اور سِکھا سکے۔ 

Powered by Blogger.
۔
Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...