بلاگی دوستوں کے نام

بلاگستان نے میرا ہمیشہ سے لکھنے کا شوق پورا کیا اور مُجھے اپنے اظہارِ خیالات کی کھلی آزادی دیتے ہوئے اِنہیں دُنیا کے سامنے لانے کو موقع دیا۔ بیشتر اُردو بلاگران جس لگن اور جذبے سے انٹرنیٹ کی دُنیا میں اُردو کے فروغ کیلئے کوشاں ہیں وہ بلاشبہ قابل تحسین ہے۔ ایک خوش آئیند بات جو مجھے بہت پسند ہے وہ یہ کہ بلاگران ایک دوسرے سے کسی نہ کسی صورت میں رابطے میں ہیں۔ سوشل نیٹ ورکنگ سائیٹس اور آن لائن چیٹنگ وغیرہ کے علاوہ، اب بیشتر بلاگران کے آپس میں براہِ راست روابط بھی ہیں اور مزے کی بات کہ یہ روابط دھیرے دھیرے دوستیوں کی اشکال اختیار کرنے لگے ہیں۔ مُلک بلکہ دُنیا کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے اُردو بلاگران اب آپس میں بہترین دوست بنتے جارہے ہیں۔ کوئی اور رابطہ ہو نہ ہو، ہم سب کا بنیادی رشتہ ایک ہی گھرانے (یعنی بلاگستان) سے تعلق رکھنا ہے۔ :)

تمام بلاگران ایک دوسرے کی تحاریر کو پڑھنے کے علاوہ اِن پر خوب اظہارِخیالات کرتے ہیں اور اہم موضوعات کو زیرِبحث بھی لاتے ہیں۔ اِسی تسلسل میں ایک بات جو مُجھے ہمیشہ سے بُری لگتی رہی وہ ایک دوسرے کی تحاریر (بلاگی پوسٹوں) کے جواب میں لمبی چوڑی تحاریر لکھنا ہے اور اکثر یہ سلسلہ زیادہ طول اختیار کر جاتا ہے۔ بلاگران ایک دوسرے کی تحاریر کے جواب میں ایسی تحاریر لکھتے ہیں جو کسی تیسرے شخص کی سمجھ سے بالا تر ہوتی ہیں۔ پھپھے کٹنی، آنٹی اور بارہ سنگھا اِسی طرح کے سلسلوں کے مشہور کردار رہ چکے ہیں۔ جن پر بیشتر بلاگران نے بے شمار پوسٹیں لکھیں۔ اِسکے برعکس ایک ایسا سلسلہ جسے تمام بلاگران نہایت پسند کرتے ہیں اور بلاشبہ جسکی وجہ سے اِس گھرانے کے تمام افراد کا آپس میں رابطہ قائم رہا (جو کہ ایک خوش آئیند بات ہے) وہ چند خاص سوالات کے جوابات دے کر کسی دوسرے بلاگر کو ٹیگ کرنا ہے۔ ٹیگ زدہ بلاگر کو لازماً انہی سوالات کے جوابات دے کر کسی اور بلاگر کو ٹیگ کر کے اِس سلسلے کو جاری رکھنا ہوتا ہے۔ لیکن ایک بات جو مجھے اِن تمام تحریری سلسلوں میں مایوس کرتی ہے وہ یہ کہ کسی بھی نئے قاری کو ہماری ایسی تحاریر کی نہ تو سمجھ آتی ہے اور نہ ہی اُسکی اِن میں کوئی خاص دلچسپی ہوتی ہے۔ یوں پڑھنے والا اپنے دماغ میں انٹرنیٹ پر موجود اُردو تحاریر کا ایک منفی تاثر لے کر جاتا ہے اور دوبارہ کسی بھی اُردو بلاگ کو پڑھنے سے اجتناب برتتا ہے۔ لہٰذا میرے خیال سے ہر بلاگر کو کسی ایک بلاگر یا اُسکی کسی تحریر کے جواب میں لکھنے کی بجائے پوری دُنیا کو سامنے رکھتے ہوئے لکھنا چاہئیے۔ اگر کسی ایک بلاگر یا کسی بلاگر کی تحریر کے جواب میں لکھنا بھی ہو تو اِس انداز میں لکھا جائے کہ ہر قاری تحریر کو پڑھ کر نہ صرف بآسانی سمجھ سکے بلکہ تحریر سے پوری طرح لطف بھی اُٹھاسکے۔

بلاشبہ ایک بلاگرکیلئے تمام اُردو بلاگران کو مخاطب کرنے کا بہترین ذریعہ بلاگی پوسٹ (یعنی بلاگ پر تحریر) ہے لیکن جس نقطہ کی وضاحت میں کرنا چاہ رہا ہوں وہ یہ کہ بیشتر بلاگران کی ہر دوسری پوسٹ ہی کسی خاص بلاگر یا کسی بلاگ پوسٹ کے جواب میں ہوتی ہے۔ ہمیں ضرور ایک دوسرے سے رابطے میں رہنا چاہئیے لیکن اِسکا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ ہماری ہر تحریر ہی ایک دوسرے کیلئے ہو (چاہے اِسکی وجہ اپنے بلاگ کی تشہیر ہی کیوں نہ ہو) اور ہم اپنے لکھنے کا حقیقی مقصد کھو بیٹھیں۔

اِک انسان ہونے کے ناطے میری سوچ غلط یا مُجھے کوئی غلط فہمی بھی ہوسکتی ہے۔ اگر ایسا ہے تو آپ سے مثبت تبصروں کی اُمید رکھتا ہوں جو میری سوچ یا غلط فہمی کی تصیح کیلئے فائدہ مند ثابت ہوں گے وگرنہ میری تمام اُردو بلاگران سے گزارش ہے کہ ایسی پوسٹیں لکھنے میں کمی لائی جائے جن کا دائرہ کار فقط ایک بلاگر یا چند بلاگران تک محدود ہو۔ اِسکے برعکس ایسی تحاریر ذیادہ سے ذیادہ لکھنے کی کوشش کی جائے جو پوری قوم بلکہ پوری انسانیت کیلئے فائدہ مند ہوں۔

11 comments:

  1. انسانیت وغیرہ کی بھلائی کا تو کچھ پتہ نہیں
    لیکن یہ بات واقعی درست ہے کہ تحریر ایسی ہونی چاہیے کہ بلاگرز کے علاوہ کوئی بھولا بھٹکا عام قاری بھی اگر آجائے تو دوبارہ آنے جوگا رہ جائے۔ اچھا لکھا

    ReplyDelete
  2. یار بھئیے یہ پوسٹ تو دو سال پہلے آنی چاہئے تھی
    خیر اب بھی ٹھیک ھے
    اللہ کا شکر ھے کہ تیرے بھی دودھ کے دانت گرنا شروع ہوئے ہیں :D

    ReplyDelete
  3. جعفر بھیا سنجیدہ تبصرے اور حوصلہ افزائی کا بے حد شکریہ۔ خوشی ہوئی آپنے میرے موقف سے اتفاق کیا۔ جی بالکل میں بھی یہی چاہتا ہوں

    ڈفر یہ سارے تحریری سلسلے پڑھتا تو ہمیشہ رہا لیکن چونکہ کبھی مطمئن نہیں ہوا اور نہ ہی (اوپر بتائی گئی وجہ کی بناء پر) کبھی یہ تحاریر پسند آئیں لہٰذا تبصرہ کرنے سے گریز کرتا رہا اور ممکنہ حد تک اِن سلسلوں سے بچتا رہا۔ یہی وجہ ہے میں نے کبھی اِن معاملات پر لکھا بھی نہیں

    ReplyDelete
  4. جناب ایک بات مجھے ہمیشہ تنگ کرتی ہے کہ ایک خاصہ پڑھا لکھا آدمی بجائے کسی مصنف کی تحریر کی وضاحت کرنے یا اس پرتبصرہ کرنے کے مصنف کی ذات کو نشانہ بنائے

    ReplyDelete
  5. عادل بھیا آپ کی بات ایک روپیہ تے سولہ آنے ٹھیک ہے، بلکہ نہایت عمدہ اور پتے کی بات ہے۔ تحریر چاہے جوابا لکھی گئی ہو ( جو کہ کسی بھی لکھنے والے کا حق ہے ) مگر ایسی لکھی جائے کہ ایک الگ تحریر کے طور پر کسی بھی قاری کے لیے نفسِ مضمون کو سمجھنے کا پورا سامان اپنے اندر رکھتی ہو۔

    ReplyDelete
  6. دیکھیے صاحب یہ بات تو آپ کی درست ہے کہ کچھ ایسی تحاریر ہیں کہ آدمی ان کے شان نزول کی بابت شک میں رہے لیکن یہ صورتحال اردو بلاگنگ سے مخصوص نہیں بلکہ ہر زبان کے بلاگز میں یہ صورتحال رہتی ہے لیکن بلاگز کی تعداد کی زیادتی کے سبب شماریاتی طور پر اتنی موثر نہیں رہتیں جتنی اردو بلاگز میں۔ یہاں میں تھوڑا سا اختلاف کرسکوں تو عرض ہے کہ آدمی وہی لکھے جو من میں ہو تاکہ مختلف النوع خیالات پنپ سکیں۔ آپ کے خیالات کچھ بھی ہوں کہیں نا کہیں کسی نا کسی کے لیے وہ ناگوار ہوں گے۔ سیاسی درستگی تو وہاں اہم ہے جہاں قارئین اور صارفین میں فرق نا ہو۔

    ReplyDelete
  7. افتخار اجمل صاحب:: جی آپکی بات بالکل بجا ہے۔

    نعمان بھیا:: خوشی ہوئی آپ میرے نقطۂ نظر کو بالکل صحیح سمجھے۔

    راشد بھیا تبصرے کا بہت شکریہ۔ لیکن تحریر کی روشنی میں آپکے تبصرے کے آخیر دو جملے کچھ صحیح سمجھ نہیں پا رہا۔

    ReplyDelete
  8. جناب آپکی بات سے بالکل اتفاق ہے۔ لیکن ظاہر ہے ہر ایک بلاگر کی اپنی دنیا ہے، اپنی سوچ ہے، اپنا مقصد ہے سو ہر ایک کو حق بھی ہے کہ جو چاہے لکھے ۔ پڑھنا نہ پڑھنا قاری کا کام ہے۔
    ٹیگ ایک اچھا سلسلہ ہوتا ہے۔ باقی تعصب، دشمنی، پنگے بازی، وغیرہ ظاہر ہے ایک چول کام ہے۔ اختلافِ رائے کو واضح کرنے کیلئے جوابی پوسٹ لکھنا کسی حد تک ٹھیک ہے۔ مجھے وہ پوسٹیں زہر لگتی ہیں جو کسی بلاگر کی ذاتیات کو نشانہ بناتی ہیں خاص طور پہ جب ان کا مقصد مذاق اڑانا ہو۔

    ReplyDelete
  9. عمیر بھیا اتفاقِ رائے اور اظہارِ رائے کا بہت شکریہ۔
    بھیا ذاتی ڈائری پر انسان جو مرضی لکھے، یہ اُسکا حق ہے لیکن سوشل بلاگز، رسائل، اخبارات و رسائل، وغیرہ میں انسان اپنی سوچ تو ضرور ظاہر کرتا ہے لیکن قارئین کو بھی کسی نہ کسی حد تک مد نظر ضرور رکھتا ہے۔ اگر ہمارے بلاگز پر قارئین کی آمد ختم ہوجائے تو ہم شائید بلاگز لکھنا ہی چھوڑ دیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہم چند بلاگران کی بجائے پوری دُنیا کو سامنے رکھتے ہوئے لکھیں۔
    دوسری بات ہمیں ضرور اپنے خیالات کا اظہار کرنا چاہئیے لیکن ہر پوسٹ ہی کسی پوسٹ کے جواب میں ہوگی تو آپکے بلاگ کے قارئین صرف دس پندرہ بلاگروں تک محدود ہو جائیں گے۔

    ReplyDelete
  10. چند دن سے ایک بات ذہن میں گردش کر رہی ہے کہ ہمارئے کسی پوسٹ کی پڑھنے کی عمر بہت ہی کم ہوتی ہے۔

    ہم پوسٹ پر پوسٹ لکھتے ہیں ۔لیکن جو پرانے پوسٹ ہوتے ہیں بس وہ بالکل غایب ہی ہوجاتے ہیں۔

    یا ایک مخصوص تعداد کے لوگ ہمارے بلاگز پر آتے ہیں اور شاید انہیں کیلئے ہم بلاگ لکھتے ہیں۔

    جب سے یہ باتیں ذہن میں آئی ہے، بلاگ لکھنے سے دل اچاٹ گیا ہے۔کیونکہ ان جوابات کا کوئی مثبت جواب نہیں مل رہا،کہ دل مطمئن ہوجائے۔

    آپکا کالم اچھا ہے۔جس مرض کی نشاندہی کی ہے آپ نے ،میرئے خیال میں وہ یقینا پایا جاتا ہے۔ اور ہمیں ہی اسکو ختم کرنا ہوگا ۔انشاء اللہ تعالیٰ

    ReplyDelete
  11. درویش خراسانی:: بھیا تحریر کو پڑھنے، سمجھتے ہوئے اپنی رائے دینے اور سراہنے پر میں آپکا مشکور ہوں
    آپکے ذہن میں جو بات گردش کر رہی ہے وہ کافی حد تک دُرست بھی ہے لیکن لکھنا چھوڑ دینا حل تو نہیں۔ ہمیں اِس مرض کے حل کیلئے باہمی مشاورت سے کچھ سوچنا ہوگا۔

    ReplyDelete

Powered by Blogger.
۔
Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...