باباجی ۔۔۔ بقیہ حصہ

ہم تو سوچتے ہیں کہ باباجی کے کوئی درجن ایک شہزادے ہوتے تو سبھی کمپنی کے کسی نہ کسی عہدے پر براجمان ہوتے۔ جی ہاں۔۔۔۔ کمپنی کے اکاونٹس مینیجر اپنا تجربہ بیان کرتے ہیں کہ اِک ماہ کی آخیر تاریخوں میں ہم نے حسبِ معمول کمپنی کے عملہ کی تنخواہوں کو مرتب کیا تو باباجی ہم سے مُخاطب ہوئے کہ کیا اس فہرست میں ہمارے چھوٹے شہزادے کا نام بھی ہے؟ نفی میں جواب دینا تو کُجا، ہم تو آنکھیں پھاڑے باباجی کی جانب تکنے لگے۔ جواب ملا کہ کیا آپکو نہیں معلوم ہمارا سترہ سالہ شہزادہ ہماری کمپنی کا نیا ڈرافٹس مین ہے۔ وہ اس ماہ ہماری کمپنی کے فلاں ڈیلر کے پاس بیٹھ کر اپنی خدمات سرانجام دیتا رہا ہے۔ لہٰذا اُسکی تنخواہ کا بھی شمار کیا جائے۔ تفتیش کرنے پر وہ ڈیلر بچے کا تایا نکلا۔ باباجی کے جانے کے بعد ہم نے چھوٹے شہزادے کا موبائل نمبر تلاش کیا اور کال ملائی، سلام دُعا کے بعد جناب سے پوچھا کہ حضرت دفتری اوقات میں کہاں غائب ہیں؟ آخر کو وہ کمپنی کے عملہ کا حصہ تھے اب، یہ پوچھنا ہمارا حق بنتا تھا۔ دوسری جانب سے جواب ایسی معصوم آواز میں موصول ہوا گویا نائیٹ پیکیچ کروا کر ہم کسی بچی سے گپیں مار رہے ہیں۔ ’’ جی۔۔۔ وہ۔۔۔۔ ابھی باجی کو یونیورسٹی سے لے کر آرہا ہوں۔ خیریت تو ہے نا؟ ‘‘ اب ہم کیا کہتے کہ بیٹا دفتر تشریف لائیے، یہ وقت باجیوں کو یونیورسٹی سے لانے کا نہیں بلکہ دفتر میں کام کرنے کا ہے۔ آخر کو آج جناب کی تنخواہ جو تیار ہورہی تھی۔
حساب کتاب کے مینیجر مزید فرماتے ہیں کہ ایک دن ہم حسبِ معمول اپنی نشست پر براجمان تھے کہ باباجی کی جانب سے ہمارا بلاوا آیا۔ جناب کے پاس حاضری دی تو معلوم ہوا کہ جناب کسی ادارے کے ٹینڈر کیلئے دستاویزات تیار کر رہے ہیں اور ہمیں باباجی کا دستاویزات تیار کرنے کا یہ مرحلہ نہایت دلچسپ لگا۔ جناب نے انٹرنیٹ سے کُچھ متعلقہ مواد ڈانلوڈ کیا اور پھر نقل کرنے لگے، وہی اجزاء، وہی مواد اور وہی قیمتیں اب جناب کی کمپنی کے دستاویزات کا حصہ تھیں۔ ہمارے شیر انجینئیر نے دوبارہ جسارت کرتے ہوئے باباجی کی عقل میں پھونک مارنے کی کوشش کی کہ جناب جس منصوبے کے ٹینڈر کیلئے آپ یہ دستاویزات تیار فرما رہے ہیں، اُسکیلئے ہمیں کُچھ مختلف مواد کی ضرورت ہوگی اور جو قیمتیں آپ چھاپے جا رہے ہیں وہ آج سے کئیں سالوں قبل کی ہیں، اگر ایسا ہی ٹینڈر بھرا تو منصوبے پر کام کرنا دُشوار ہوجائے گا۔ یہ کہنا تھا کہ باباجی کی کہانیاں شروع۔۔۔۔۔ کہ ہم نے فلاں فلاں منصوبوں پر کام کیا۔۔۔۔۔ یہ ہمارا طریقہ ہے۔۔۔۔۔ آپ ان باتوں کو نہیں سمجھیں گے۔۔۔۔۔ خیر باباجی ہماری طرف متوجہ ہوئے اور کہنے لگے کہ یہ جو حساب کتاب ہم نے کیا، اسکا کُل کیجئیے کہ کتنا بنتا ہے۔ ہم نے بتایا کہ جناب یہ تو اتنا بن رہا ہے۔ کہنے لگے کہ نہیں یہ کُچھ زیادہ ہوگیا آپ ایسا کیجئیے کہ جو رقم سب سے بڑی ہے وہ بتائیے۔ ہمارے بتانے پر کہنے لگے کہ اس میں سے اتنے لاکھ کم کر دیجئیے، ہم نے ایک مرتبہ بلے جیسی موٹی موٹی آنکھوں سے باباجی کی جانب دیکھا اور پھر اُس رقم کو کم کردیا۔ خیر کُل کرنے پر جناب کو رقم پھر کافی بڑی لگی اور یوں یہ کھیل بار بار دُہرایا گیا۔۔۔۔ کوئی مانے نہ مانے۔۔۔۔ ہم تو اس کھیل سے بہت لُطف اندوز ہوئے۔۔۔۔
خیر ان تمام باتوں کے باوجود تقدیر باباجی کو کرنل کی وساطت سے رزق مہیا کئیے جا رہی ہے اور باباجی آجکل ہواؤں میں اُڑے جارہے ہیں۔ ہمیں لگتا ہے کہ آج نہیں تو کل باباجی جتنی اُونچائی سے زمین پر آگریں گے اُتنی ہی اُونچی ڈھزززززز ہو گی۔
خیر لیجئیے باباجی کا ایک کارنامہ مزید سُنتے جائیے۔۔۔ حسبِ معمول تمام عملہ دفتر میں بیٹھا مکھیاں مار رہا تھا وہ بھی اس ہوشیاری سے کہ دیکھنے والا سمجھنے لگے، ہو نہ ہو کشمیر تو اسی کمپنی نے فتح کرنا ہے۔ اچانک کُچھ خواتین زبردستی دفتر میں گھُسی آئیں۔ یہ خواتین دیکھنے سے کسی اچھے گھرانے سے تعلق رکھنے والی معلوم ہوتی تھیں مگر تھیں پیشہ ور بھکاری۔ وہ اکثر دفتر تشریف لاتیں اور پوچھنے پر بتاتی کہ ہمیں باباجی سے ملاقات کرنی ہے، عملہ کا ایک بندہ تو کہنے لگا کہ میں سمجھا یہ باباجی کی گھروالیاں ہیں لہٰذا کُچھ نہیں کہا۔ اتفاق سے وہ مانگنے والیاں جب بھی آتیں تو باباجی دفتر میں موجود نہ ہوتے لیکن آج بزرگوار بھی تشریف فرما تھے۔ مانگنے والیاں سیدھی باباجی کے پاس حاضر ہوئیں اور مالی امداد کی التجاء کرنے لگی۔ باباجی غُصے میں بولے کہ آخر چاہتی کیا ہو تم؟ اُن میں سے ایک بولی جناب ہماری مدد فرما دیجئیے۔ آہا۔۔ ہا۔۔ ہا۔۔۔ باباجی نے کیا پاکیزہ جواب دیا۔۔۔۔ کہنے لگے کہ جس مدد کی تم بات کرتی ہو وہ تو میں صرف اپنی بیوی کی کرتا ہوں۔۔۔۔ وہ دِن اور آج کا دِن، مانگنے والیاں مُڑ کر دوبارہ کبھی نہیں آئیں۔ شائید وہ باباجی سے ذیادہ عزت دار نکلیں۔ باباجی کی اس حاضر دماغی کو ہماری جانب سے دُر سلام۔
ہم اگر باباجی کے گُن گانے لگے تو کی بورڈ گھِس جائے گا، بجلی چلی جائے گی، لیپ ٹاپ کی چارجنگ مُک جائے گی لیکن ہمارے باباجی کی تعریف میں یہ قصیدے ختم ہونے کا نام نہیں لیں گے۔ خیر وہ دِن اور آج کا دن، ہم کسی بھی پاکستانی مصنوعات کو دیکھتے ہیں تو دماغ فوراً چھلانگیں مارنے لگتا ہے کہ ضرور اس مصنوعات کے پیچھے بھی کوئی نہ کوئی باباجی تشریف فرما ہوں گے۔

8 comments:

  1. بھیا!
    کہانی کی تمہید بہت اچھی تھی. کردار نگاری بھی خوب کی کہانی کو لے کر بھی خوب چلےمگر کہانی میں کوئی ٹوسٹ یا کلائمکس نہیں آیا اور نا ہی کوئی پیغام دیا گیا؟؟؟

    ReplyDelete
  2. ڈاکٹر جواد بھیا @ تحریر پڑھنے اور تبصرہ کرنے کا نہایت شکریہ۔ جی اس بات کا اندازہ کُچھ کُچھ مُجھے بھی ہے۔ شائید جلدی میں لکھی اور دوسری بات تحریر کو مزید لمبا نہیں کرنا چاہتا تھا جسکی وجہ سے جلد ہی اختتام کردیا۔ تحریر کا آخری جملہ ہی وہ بنیادی بات ہے جسکی وجہ سے اس موضوع پر لکھا۔

    ReplyDelete
  3. پردے ڈالا کرو لوگوں کی برائیوں پر ۔۔
    :(
    کیا معلوم وہ تمھاری پوسٹ سے پہلے سب چھوڑ چکا ہو

    ReplyDelete
  4. امتیاز بھیا @ جی کوشش تو ہوتی ہے لیکن جب بات حد سے بڑھ جائے اور اُمیدیں ختم ہوتی ہوئی دکھائی دینے لگیں تو اکثر پھر دِل کی بڑھاس نکالنے کیلئے لکھنے پر مجبور ہوجاتا ہوں۔ یہ کوئی پُرانی بات نہیں۔ باباجی جوں کے توں ہیں۔ اُنکے چھوٹے بیٹے کو یہ تیسرا مہینہ ہے کہ وہ گھر میں بیٹھا ہے اور کمپنی سے تنخواہ لئے جارہا ہے۔ حرام کی بھی حد ہوتی ہے۔ جب عوام ایسی ہوگی پھر حکمران طبقے سے شکایت کیوں؟

    ReplyDelete
  5. میں بھی یہی کہنا چاہتا تھا جو بلاامتیاز نے کہا

    پردے ڈالا کرو لوگوں کی برائیوں پر ۔۔
    :(
    کیا معلوم وہ تمھاری پوسٹ سے پہلے سب چھوڑ چکا ہو

    ReplyDelete
  6. عرفان بھیا @آپکی رائے کی قدر کرتا ہوں۔ میں بھی آپکے تبصرے کے جواب میں وہی کہوں گا جو امتیاز بھیا کو کہا۔ بلاگ پر تشریف آوری اور تبصرہ کرنے کا شکریہ۔

    ReplyDelete
  7. پہلے ایک مشورہ: قسط وار تحریر کے شروع میں یا آخر میں پچھلی اقساط کے روابط شامل کر دیا کریں۔
    تحریر کے بارے میں یہی کہ اچھی لکھی ہے لیکن کیا اور کیوں لکھی ہے۔۔۔۔یہ مجھے نہیں پتا چلا۔ کیونکہ ہم ان حضرت کو جانتے نہیں اس لئے پتا نہیں طچلتا کہ کیا بات ’پنچ‘ کے طور پہ لکھی ہے اور کیا اصل میں لکھی ہے۔

    ReplyDelete
  8. عمیر بھیا @ مشورے کا شکریہ۔ میرا بھی یہی ارادہ تھا لیکن آجکل کافی مصروف ہوگیا ہوں تو بس جلدی سے صرف تحریر ہی شائع کی۔ لیکن اب اگر ربط دوں تو کیا تحریر اُردو سیارہ پر دوبارہ شائع ہو جائے گی۔
    شکریہ۔ لکھا سب کچھ سچ ہے سو فیصد۔ دراصل ان حضرت کے درمیان کُچھ عرصہ رہ کر آیا ہوں، اُنکی غیر مہزبانہ اور انہی حرکتوں کی وجہ سے میں نے جلد ہی اپنی راہیں اُن سے بدل لیں۔ لیکن دُکھ ہوتا ہے کہ جسکا جو بس چل رہا ہے بس ایک دوسرے کو لوٹنے اور حرام کمانے میں لگا ہوا ہے۔ جب ہم خود ایسے پھر کیوں حکمران، امریکہ، ایجنسیوں، طالبان، وغیرہ کو طعنے دیتے ہی؟

    ReplyDelete

Powered by Blogger.
۔
Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...