کچھ یادیں




ہمارے سکول کے قریب ہی مجاہدہ اکیڈمی کے نام سے ایک اکیڈمی تھی جہاں خواتین کو مختلف کورسِس کروائے جاتے تھے۔ اس اکیڈمی میں بیشتر تعداد بی۔ایڈ کرنے والی بچیوں۔۔۔ اوہ۔۔۔ میرا مطلب ہے کہ خواتین کی ہوتی تھی۔ کچھ یاد ہو نہ ہو یہ اچھی طرح یاد ہے کہ بی۔ایڈ کی یہ طلبات ہر سال ہمارے سکول تشریف لاتیں اور یہاں انکو کسی کلاس کا ایک پیریڈ لینا ہوتا تھا۔ کچھ تھانیدار نما حضرات‘ بغلوں میں فائیلیں دُبائے کلاس میں تشریف لاتے اور سب سے پیچھے, جہاں نالائقوں کے ٹولوں کی محفل جما کرتی تھی آ کر بیٹھ جاتے۔ کچھ دیر ان بچیوں کو۔۔۔ سوری۔۔۔ ان طلبات کو گُھور گُھور کر دیکھتے رہتے (اس تکنے کے عمل کی تفصیل بتانے سے میں قاصر ہوں)۔ پھر اپنی فائلوں میں کچھ لکھنے لگتے گویا کوئی جج کسی وکیل کے دلائل سُن کر اپنے سامنے موجود فائل پر کچھ لکھ رہا ہو۔۔۔ خیر پھر ایک دوسرے کے کانوں میں کھُسر پھُسر کرنے لگتے اور آخر کار جس خاموشی سے آئے تھے اُسی خاموشی سے چلے جاتے۔۔۔ پوری کلاس سے ایک ٹھنڈی آہ بھرنے کی آواز اُبھرتی جس میں سب سے زیادہ اونچی آواز انہی ملزموں کی ہوتی تھی جنکا مقدمہ پیش کیا جارہا ہوتا تھا۔ ویسے کیا مزے کی بات ہے کہ ملزم بھی خود اور اپنی وکالت بھی خود ہی۔۔۔
اوہ۔۔۔ یہ بتانا تو بھول ہی گیا کہ یہ وہ سکول ہے جہاں سے ہم نے میٹرک میں پاس ہونے کا عظیم کارنامہ مَر مَر کر اور سِسکتے سِسکتے سرانجام دیا تھا۔
ایک دن ہم حساب کا بورنگ پیریڈ لے رہے تھے۔۔۔ نہیں۔۔۔ بلکہ اُستادِ محترم زبردستی دے رہے تھے۔ کہ اتنے میں ایک کلرک جماعت میں داخل ہوا‘ اُستاد جی کے قریب آکر کچھ کہا اور چلا گیا۔ سَر نے ڈائیز پر کھُلی کتاب کو بند کر دیا۔۔۔ جو ہم سب کے دِلوں کیلئے باعث مُسرت اور باعثِ سکون تھا۔ پھر سَر مُسکراتے ہوئے‘ کچھ شرمیلے سے انداز میں بولے کہ لو بھئی مجاہدین آرہے ہیں۔ ہم حیران ہوئے کہ مجاہدین کون؟ تو جنابِ والا نے بتایا کہ ارے بھئی۔۔۔ مجاہدہ اکیڈمی کی پیداوار مجاہدین ہی کہلائے گی نا۔۔۔ اُستاد محترم کی اِس بات سے پوری کلاس قہقہوں سے گونج اُٹھی۔۔۔ دراصل زیادہ خوشی سَر کے کلاس سے جانے کی تھی۔ پوری کلاس میں ہُو۔۔۔ ہا۔۔۔ ہُو۔۔۔ ہا۔۔۔ کی آوازیں گونجنے لگی۔ ہماری تو گویا عید ہو جاتی تھی اِن مجاہدین کے آنے پر۔۔۔ اصل خوشی تو پڑھائی سے چھٹکارے کی ہوتی تھی۔
کچھ ہی دیر میں ایک باجی کلاس میں تشریف لے آئیں۔۔۔ ہماری تو خوشی کی انتہا نہ تھی۔۔۔ خوب نعرے لگا کر مجاہدہ باجی کو خوش آمدید کہا۔ آغاز میں تو میڈم صاحبہ نے بہت رُعب جھاڑنے کی کوشش کی گویا یوں معلوم ہوتا تھا کہ کسی نے مشورہ دیا ہو کہ کلاس کو جاتے ہی کنٹرول کرلینا ورنہ بعد میں قابو نہیں آئے گی۔ لیکن ہم بھلا اُنکو استادی کیسے کرنے دے سکتے تھے۔۔۔ آخرکار کافی دیر کی تگ و دو کے بعد باجی جی ہمیں خاموش کروانے میں کامیاب ہوہی گئیں۔۔۔ اتنے میں کلاس کے باہر سے ایک اور ماڈل نما مجاہدہ کا گزر ہوا۔۔۔ ماڈل نما اِسلئے کیونکہ وہ طالبہ کم اور ماڈل زیادہ دِکھائی دیتی تھیں۔ اُنکو دیکھتے ہی ہماری کلاس میں موجود باجی نے آواز کس دی۔۔۔ سلمااااء!!!! سلماء جی بھی فوراً اندر آگئیں۔۔۔ دونوں باجیاں ایک دوسرے کی جانب بڑھیں اور  اپنے روائیتی انداز میں ایک دوسرے سے اپنے منہ بچاتے ہوئے اُوومچہ اُوومچہ کرتے ہوئے پیار کرنے لگی۔ یوں محسوس ہو رہا تھا گویا ہم نے پچپن کی بِچھڑی دو بہنوں کو آپس میں ملوا دیا ہو۔ ایسے موقع پر جیسی خوشی ملوانے والے کو ہوتی ہے ویسی ہی ہمیں بھی ہو رہی تھی۔ آخرکار یہ منظر دیکھتے ہوئے ہم بھی دو لڑکے اپنی نشستوں سے اُٹھے اور ایک دوسرے کو گلے لگا لیا اور زوردار پچک پچک کر کے ایک دوسرے کو پیار دئیے لیکن اس دوران ہم دونوں کے منہ کے درمیان کوئی پورے ایک ڈیڑھ فُٹ کا فاصلہ تھا۔ یہ دیکھنا تھا کہ باجیاں بھی خوب کھِلکھِلا کر ہنس پڑیں اور پوری کلاس قہقہوں سے گونج اُٹھی۔۔۔ ہمیں تو ایسا محسوس ہوا گویا آج ہمیں پرائیڈ آف دی پَرفارمنس کا ایوارڈ مل گیا ہو۔ خیر ہم دونوں ہاتھ بلکہ دونوں بازو ہوا میں لہرا لہرا کر دوستوں کی داد کا شکریہ ادا کرنے لگے۔

13 comments:

  1. lolzzzz... really interesting article.... aur muje khas tor pa wo wala part acha laga jis main bajia galay mil rahi thi... lolzzz... waisay muje kabhi is tarha ki situtation ka samna nahi hua.... anyways on the whole a nice and funny article... keep it up!!!!!

    ReplyDelete
  2. کچھ دیر ان بچیوں کو۔۔۔ سوری۔۔۔ ان طلباء کو گُھور گُھور کر دیکھتے رہتے

    دونو ہی غَلَط ۔ نہ بچياں نہ طلباء ۔ ۔ ۔ بلکہ طالبات

    ايک بات جو لکھنا رہ گئی يہ ہے کہ ان کا عملی امتحان درست طريقہ سے ليا جاتا تھا

    ReplyDelete
  3. عاتکہ آپی:: شکریہ
    بھوپال کشمیری صاحب:: دُرستگی کر دی گئی ہے۔ شکریہ

    ReplyDelete
  4. بڑے گندے تھے جی وہ گھور گھور دیکھنے والے لوگ۔۔
    پھر کوئی کہہ دے کہ یہ لوگ گھور گھور کر دیکھتے ہیں تو ناراض ہو جاتے ہیں۔
    پیاری یادیں ہیں۔شکریہ ہمارے ساتھ بانٹنے کا۔

    ReplyDelete
  5. LOL
    Interesting
    hahaha @ mujahida girls.........ohhh... Khawateen....
    error_angel

    ReplyDelete
  6. بھوپال کشمیری؟؟
    بھوپال کسی آدمی کا نام ہے جو کشمیر میں رہتا ہے؟

    تحریر سے ظاہر ہوتا ہے آپ بچپن سے ہی شیطان واقع ہوئے ہیں!۔

    ReplyDelete
  7. یاسر:: پیاری یادیں پیارے لوگوں کے ساتھ ہی بانٹی جاتی ہیں۔۔۔
    ایرر اینجل:: شکریہ۔ برائے مہربانی اپنا نام ضرور لکھ دیا کرو۔
    سعد بھیا:: خیر اتنے بھی شیطان نہیں ہیں جتنا آپنے سمجھنا شروع کردیا ہے۔۔۔

    ReplyDelete
  8. آپ کے بلاگ کا اسٹائل بڑا کیوٹ ہے۔ عادل بھیا

    ReplyDelete
  9. نغمہ سحر:: میرے بلاگ پر خوش آمدید۔
    یہ آپنے کیوٹ کہہ کر میرے اُس تبصرے کا بدلہ چکایا ہے جو میں نے آپکے بلاگ پر کیا؟ ہاہاہا خیر بہت شکریہ۔ اُمید ہے کہ آئیندہ بھی یہاں کا چکر لگتا رہے گا۔

    ReplyDelete
  10. very funny and interestig blog:D
    lagta hy ap ny school life ko kafiiiiiiiii enjoy kya isi liay matric mar mar k pass kya.

    ReplyDelete
  11. good ol chaklala days

    ReplyDelete
  12. بُشرہ @ شکریہ۔ ذیادہ سوالات کرنا اچھی بات نہیں :ڈ

    بے نام @ جناب تبصرہ نام کے ساتھ کیا کیجئیے۔ جی کوئی شک نہیں کہ وہ دن اچھے تھے :)

    ReplyDelete
  13. پڑھ کر اپنے سکول کا وخت یاد آ گیا جہان ہم کو بھی پڑھائی کا وختہ پڑا ہوتا تھا پر افسوس ہمیں بچانے کوئی مجاہدہ نہیں آتی تھی ہم کو خود ہی پیریڈ پار کرنا ہوتا تھا

    ReplyDelete

Powered by Blogger.
۔
Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...