بڑے میاں




بڑے میاں سے جب بھی مخاطب ہو تو جواباً ہمیشہ اِک نئی فلاسفی سُننے کو ملتی ہے۔ ہے تو یہ اکیسویں صدی مگر جنابِ والا کسی پُرانے زمانے کی مخلوق معلوم ہوتے ہیں۔ کوئی ایک بات ہو تو بتاؤں نا اِنکی تو ہر ہر ادا ہی نرالی ہے۔ میں تو آج تک اِن حضرت کی فطرت کو  سمجھ ہی نہ پایا۔ دراصل اناپرستی اور خودداری جیسے خطرناک امراض میں مبتلا ہیں یہ۔ میں تو کہتا ہوں کہ اللہ ہر کسی کی ان امراض کے جراثیموں سے حفاظت فرمائے۔ جسکو اِن بیماریوں کا وائرس لگ جائے۔۔۔ اوئے ہوئے ہوئے۔۔۔ پھر تو سمجھو کہ پوری زندگی گئی اُس شخص کی۔۔۔ بھوکا مرتا ہے ایسا شخص۔۔۔ کیا فائدہ ہے ایسی زندگی کا؟ ہاں البتہ بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جنکو اِن امراض نے جوانی میں ہی آلپٹا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اُنہوں نے اپنی گزری ہوئی زندگی سے سبق سیکھ لیا اور پھر ’’راہِ راست‘‘ پر آگئے۔ مگر اِک ہمارے بھائی صاحب ہیں۔۔۔ یوں معلوم ہوتا ہے گویا اِنکے دماغ پر دیمک نے حملہ کیا ہو اور ماسوا بھوسے کے اب انکے دماغ میں کچھ نہیں۔ ارے اب بچے تو یہ رہے نہیں‘ بڑے ہوگئے ہیں۔۔۔ بہت سی ذمہ داریاں ہیں اب اِنکے سر پر اور کوئی ذریعہءِمعاش بھی تو اختیار کرنا ہے۔۔۔ ابھی پچھلے دنوں کی ہی بات ہے کہ والدین نے بڑے ترلے کر کے ایک سفارش کا بندوبست کیا۔ آجکل کے دور میں ایسے گھر بیٹھے کوئی نوکری تھوڑی ہی ملتی ہے؟ کچھ تو ہاتھ پاؤں مارنے پڑتے ہیں نا۔ مگر بڑے میاں کو تو شفارش منظور ہی نہیں۔۔۔ کہتے ہیں کہ ناجائز ہے۔۔۔  ارے پگلے کو کوئی تو سمجھائے کہ یہ کتابی باتیں کتابوں میں ہی بھلی لگتی ہیں۔ سفارش عام آدمی تھوڑی ہی کروا سکتا ہے؟ اور پھر یہ کونسی سفارش ہے؟ یہ تو گزارش ہوتی ہے جو ہم کسی سے کرتے ہیں اور وہ آگے کسی اور سے کرتا ہے۔۔۔ اِنکو تو فخر محسوس کرنا چاہیئے کہ کوئی اِنکے لئے گزارش کر رہا ہے۔ اِس سے اِنکی عزت میں اضافہ ہی تو ہوگا کونسا کوئی نقصان ہے؟ یہ کتابوں میں لکھنے والے‘ بڑے بڑے صحافی‘ عالم‘ پروفیسرز‘ یہ سب آج جن اونچے اونچے عہدوں پر فائز ہیں سفارش کی ہی بدولت تو ہیں ورنہ یہاں کون کسی کو گھاس ڈالتا ہے؟ خیر۔۔۔ ہم نے بھی بھائی صاحب کی ایک نہ سُنی؟ اور وہی کیا جو اِنکے حق میں بہتر تھا یعنی گزارش کروا ڈالی۔۔۔ اب اِنکو ملک کے ایک اچھے سرکاری ادارے سے ٹیسٹ کیلئے کال آگئی۔ بھائی نے مقررہ دِن جا کر ٹیسٹ دے دیا۔ جناب کو پکی اُمید تھی کہ میرا ٹیسٹ سب سے منفرد ہوگا اور وہ مجھے ضرور سلیکٹ کریں گے۔ آخر بھائی کس کے ہیں؟ ہوا بھی یوں ہی کہ ٹیسٹ دینے کے صرف دو دن بعد ہی بھائی کو کال آگئی کہ جناب ہم آپکی ٹیسٹ میں کارگردگی سے بہت متاثر ہوئے ہیں۔ آپ برائے مہربانی کل تشریف لے آئیے۔ ہمارے باس آپسے ملاقات کرنا چاہتا ہیں۔

اگلے دِن بڑے میاں منہ لٹکائے واپس تشریف لے آئے۔ تفتیش کرنے پر معلوم ہوا کہ ادارے کے اِک معمولی افسر کو اپنے کام کیلئے کوئی کلرک درکار تھا۔ مگر جناب کے بھی کیا کہنے۔۔۔ کہتے ہیں کہ اتنا پڑھ لکھ کر ہم نے کلرک ہی بننا ہے کیا؟ لہٰذا وہاں انکار کر آئے کہ ہمیں یہ نوکری منظور نہیں۔۔۔ ارے اتنے اچھے ادارے میں روز روز نوکریاں کہاں ملتی ہیں؟ اپنا نہیں تو والدین کا ہی کچھ خیال کر لیتے۔ اتنی تو ایک مزدور کی ماہانہ آمدنی نہیں ہوتی جتنے بھیا کے تعلیمی اخراجات۔۔۔ اتنے اچھے اور عمدہ تعلیمی اداروں میں پڑھوایا مگر بڑے میاں کو تو کسی بات کا احساس ہی نہیں۔ کلرک تھے تو کیا؟ ہمیں تو پیسے سے غرض ہے خواہ جہاں سے بھی آئے۔۔۔ سرکار کی نوکری تھی اور پھر پکی بھی۔۔۔ پورے خاندان میں ناک کٹوا کر رکھ دی۔ سب کیا کہیں گے کہ اتنے اونچے اونچے تعلیمی اداروں سے پڑھ کر اب ملک کے اتنے نامور ادارے میں اتنی ’’عمدہ‘‘ نوکری ٹھکرا دی۔۔۔  اب پرائیویٹ کی در بدر ٹھوکریں کھائیں گے نا تو سب سمجھ آجائے گی؟ پرائیویٹ اداروں میں تو جھوٹ, فراڈ, رشوت اور مالک کی چپڑوسی چلتی ہے بس اور ہمارے بڑے میاں تو اِن تمام خوبیوں سے پاک ہیں۔۔۔ مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آتی۔۔۔ اب آپ ہی بتائیے کہ کیا بنے گا بڑے میاں کا؟؟؟

19 comments:

  1. Really interesting article.... aur safarish to har jaga pa chalti hai even in educational systems.... lekin hum kuch nahi kar saktay..... on the whole buhat hi intersting article hai... keep up the good work!!!!

    ReplyDelete
  2. ہمیشہ کی طرح آج بھی پہلا تبصرہ کر کے سراہنے کا شکریہ۔ ہم نہیں کر سکتے تو کون کر سکتا ہے؟

    ReplyDelete
  3. السلام علیکم۔
    یہ آپ کے بلاگ کی کچھ پوسٹیں نستعلیق اور کچھ غیر نستعلیق میں کیوں نظر آ رہی ہیں۔
    جہاں تک پوسٹ کا تعلق ہے تو سفارش اور گزارش خوب استعمال کیا ہے۔ سفارشوں۔۔۔ میرا مطلب ہے گزارشوں پہ میں نے بھی پچھلے دنوں ایک پوسٹ لکھی تھی۔۔ یہاں تو اوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ اور اگر آپ بگڑنے سے انکار کرتے ہیں واقعی لگ پتا جاتا ہے بندے کو!۔

    ReplyDelete
  4. وعلیکم سلام۔
    عین لام میم صاحب بہت بہت شکریہ۔ مجھے آپکے تبصرے دیکھ کر بہت خوشی ہوئی۔ جہاں تک یہ نستعلیق وغیرہ کی بات ہے تو ابھی نیا نیا بلاگ بنایا ہے۔وقت کے ساتھ سب ٹھیک ہو جائے گا۔
    آپکی بات بلکل درست ہے اور آپکی پوسٹ میں نے ابھی نہیں پڑھی۔ بس ابھی جا کر پڑھتا ہوں۔

    ReplyDelete
  5. hyeeee phla comment main nay karna tha oho
    buhte zada acha aur mazy ka lihkha buhte zada
    simile rahi face py
    bary mainya ka bi kuch ho jaye ga InShAllah...

    ReplyDelete
  6. دوست جی! یہ پہلے تبصرہ کرنے والا مقابلہ کب شروع ہوا ہمارے بلاگ پر؟؟؟
    اور جب بڑے میاں کو فکر نہیں تو آپ کس چیز کی فکر کر رہے ہیں؟

    ReplyDelete
  7. hahah us abi shoro hua tha main nay samjha kay abi post hua hai aur main jaldi sy ja ker comment kar don b

    ReplyDelete
  8. بھائ جی زرا خیال سے بڑے میاں بہیت بڑے گالم نگار ھے،،،،

    ReplyDelete
  9. ارے یہ اب اجنبی جی کون آگئے؟ نواں آیاں ہیں سونیا؟؟؟
    پہلے کوئی اجنبی دوست اور اب یہ اجنبی۔۔۔
    برائے مہربانی نام لکھ دیا کرو سب اپنا۔۔۔
    ارے بڑے میاں کو جانتا ہوں۔ وہ بڑا کیا چھوٹا بھی کالم نگار نہیں ہے۔۔

    ReplyDelete
  10. بڑے میاں عرف اجمل پھونچال کشمیری

    ReplyDelete
  11. بدتمیز جی! آپ جس بڑے میاں کی تلاش میں ہیں وہ یہاں نہیں پائے جاتے۔
    اگر اِس تحریر میں موجود بڑے میاں پر کوئی تبصرہ کرنا چاہتے ہیں تو خوش آمدید۔۔۔

    ReplyDelete
  12. یار آج ہی پتہ چلا تیرے بلاگ کا
    مبارکیں قبول کر
    اور نیک دعائیں بھی
    یہ تبصرہ رسید ہے
    فل فلیج تبصرے پڑھنے کے بعد
    :)

    ReplyDelete
  13. جناب!!! خیر مبارک اور بہت بہت شکریہ۔۔۔ چلو فیس بُک سے آنے والا پہلا ڈفر۔۔۔
    اب اُمید ہے کہ میری رہنمائی کیلئے آئیندہ بھی چکر لگتے رہیں گے۔

    ReplyDelete
  14. بس جی بڑے میاں بڑے میاں سبحان اللہ
    ویسے بہت خوبصورت انداز تحریر ھے آپ کا۔
    امید ھے آئیندہ بھی خوبصورت تحریریں پڑھنے کو ملتی رہیں گئ

    ReplyDelete
  15. یاسر بھیا! یقین کیجئے آپکے آنے‘ مجھے سراہنے اور کمنٹ دیکھ کر بہت بہت خوشی ہوئی۔ ارے ہمارا پیارا کیا’ ہمارا تو کوئی انداز ہی نہیں ہے لکھنے کا۔ بہت شکریہ! اُمید ہے کہ آئیندہ بھی حوصلہ افزائی کرتے رہیں گے۔ بس اُستادوں کی رہنمائی درکار ہے۔

    ReplyDelete
  16. Fida
    Jo b kro acha kro warna naa kro.agr humari socity main achai or satchai aik khali darya hain to agr her koi apna hisy ki chai ka hisa daly to aik din zaroor bhar jay ga INSHAALAH. Her kisi ko apny hissay ki achai krnia chahiye koi jo marza kry dont care to any others.And Adil bhaya aap ki tehreer hamaisha ki tarha bht achi thi I LIKE THIS.

    ReplyDelete
  17. acha lihkha hai buhte aur ka intezre rahy ga

    ReplyDelete
  18. Very nice........bilkul thek kaha anaa prsti or khud dari bohat hi aam or khatrnaak bimariyaan hain Allah bchaiy sub ko Ameen
    kuch choti choti mistaks nazr ain but wo pyhly hi kisi sahab ny kyh dya..

    ReplyDelete
  19. فدا، عمران اور بُشرہ، آپ سب کا بہت شکریہ۔ آئیندہ بھی آپکے تبصروں کا انتظار رہے گا۔
    بُشرہ آپ کونسی غلطیوں کی بات کر رہی ہو؟

    ReplyDelete

Powered by Blogger.
۔
Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...