مزاح کا رَس

ہم اِس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ آجکل کی نوجوان نسل کامیڈی ڈرامے اور پروگرامز دیکھنے کی زیادہ شوقین ہے۔ اگر کوئی مزاحیہ تحریر نظر سے گزر جائے تو پڑھ لیں گے ورنہ سنجیدہ تحاریر کو تو دور سے ہی خدا حافظ کہہ دیتے ہیں۔ مزہب میں تو ہمیں کوئی خاص دِلچسبی  ہی نہیں اور نہ ہی اِسلام کے لمبے چوڑے لیکچر سُننا ہمارے بس کی بات ہے۔ جو اُستاد ہمیں ہمارے اسلاف کے دو چار واقعات سُنا دیں وہ بُرے لگنے لگتے ہیں۔ کوئی سنجیدہ بات کرنا تو درکنار ہمیں تو کوئی سنجیدہ بات سُننا بھی گوارہ نہیں۔ بس ایک بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ یہ تین تین گھنٹوں پر مُشتمل سنجیدہ مُوویز ہم کیسے اتنے شوق سے دیکھ لیتے ہیں؟
شاید اِسکی وجہ ان فلموں میں موجود رومانس ہے جو ہمارے والدین‘ اُستادوں اور عُلماء حضرات کے لیکچرز میں نہیں ہوتا۔ ویسے اگر یہ اہم نقطہ ہمارے محترم اُستادوں کی سمجھ میں آ جائے تو پھر شاید تعلیمی اداروں میں رومانس کو پڑھائی کا باقائدہ حصہ قرار دے دیا جائے۔ اِسکا مثبت پہلو یہ ہوگا کہ جو بہانے چُھٹی کرنے اور لیٹ آنے پر طلباء کی جانب سے اُستادوں کو سننا پڑھتے تھے‘ اُن میں خاطر خواہ کمی محسوس کی جائے گی۔ تعلیمی اداروں میں کلاسیں بھر جائیں گی اور محکمہ تعلیم کو ناقابلِ یقین بہتر نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مگر افسوس کہ اتنی اہم تجویز آج سے پہلے کسی اور کے دماغ میں کیوں نہ آئی؟ ویسے اگر آئی بھی ہو گی تو کسی بےچارے طالبعلم کے ہی دماغ میں آئی ہوگی اور اُس نے یہ موقع ہمارے لئے چھوڑ دیا ہوگا۔

لیکن اِس اہم نقطہ کا ایک منفی پہلوبھی ہوگا اور وہ یہ کہ روزمرہ کی زندگی میں اِن تعلیمی کارخانوں سے ہمیں جو مصنوعات ملتی ہیں اُنکی نوعیت کچھ تبدیل ہو جائے گی۔  عموماً اِن کارخانوں کی مصنوعات میں ڈاکٹرز‘ اِنجینئیرز اور سائینسدان شامل ہوتے ہیں مگر اِس صورت حال میں اِن کارخانوں کی پیداوار "جان جان رامبو" ہوگی۔ جسکا اثر ہمارے معاشرے پر یہ ہوگا کہ ہمیں ڈاکٹرز‘ انجینئیرز اور سائینسدان حضرات کی قلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

خیر یہ تو تھا ہمارا خیالی پلاؤجو نہ جانے کہاں سے درمیان میں آ ٹپکا۔ بات تو ہو رہی تھی نوجوانوں کی۔ اوہو۔ ۔ ۔ اب خیالی پلاؤ کا نام سُن کر بیشتر طلباء کے عجیب و غریب بلکہ دِلچسب و عجیب منہ بن گئے ہوں گے۔ چلو کچھ نہیں ہوتا مشورہ دینا ہمارا کام تھا۔ اب آپکا کام اسکو عملی شکل دینا ہے۔ ہم نے تو وہ کر دیا جو ہمارے بس میں تھا۔ اب آپ وہ کیجئیے جو آپ کے بس میں ہے۔ ۔ ۔ ویسے طلباء حضرات سے گزارش ہے کہ ہماری یہ تجویز کل سکول یا کالج جاتے ہی اپنے اُستادِ محترم کو دینے سے پہلے اُنکا موڈ بھی دیکھ لیجئیے گا۔ ورنہ بعد میں آپکے ساتھ اُستادِ محترم کی جانب سے کئے جانے والے رومانس کے ہم زمہ دار نہیں ہوں گے۔ ہم آپکو نصیحت کرتے ہیں کہ اپنی عزت اپنے ہاتھ میں ہی رکھئیے گا۔ اِسی میں آپکی بہتری ہے۔

ہم ایک مرتبہ پھر اپنے عنوان کی جانب بڑھتے ہیں۔ دراصل آج کی اس تحریر کا مقصد آپکو مطلع کرنا اور نوجوانوں کو خوشخبری دینا تھا کہ ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ آئیندہ اِس بلاگ میں نمک مرچ کے علاوہ اکثر اوقات مزاح کا شیریں رَس بھی شامل کرنے کی کوشش کریں گے تاکہ ہمارے نوجوان بہین بھائی بھی اس بلاگ کو اکثر وزٹ کرتے رہیں۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اگر ہم نے سنجیدگی کا لباس اوڑھے رکھا تو اِس سادہ سے لباس کو ہمارے جدیدیت پسند دوست احباب دور سے ہی دیکھ کر بھاگ کھڑے ہوں گے۔ مزاح کی مدد سے ہم اپنے لباس کو کچھ فیشن ایبل بنانے کی کوشش کریں گے اور ظاہری سی بات ہے کہ فیشن ایبل لباس میں کپڑا کم استعمال ہوتا ہے جسکی وجہ سے ہم صرف اپنی ستّر کو بمشکل ڈھانپ سکیں گے۔ یوں ہماری بچت بھی ہو جائے گی۔ اوہ بات پھر کہاں سے کہاں نکل پڑی۔ اِس سے پہلے کہ بات پھر کہیں اور نکل جائے‘ کیوں نہ ہم خود ہی نکل جائیں۔ ۔ ۔

لہٰزا اجا زت دیجئیے۔ ۔ ۔ اللہ حافظ


12 comments:

  1. واہ بھیا جی! آپ مزاق بھی کر لیتے ہیں؟ اچھا لکھا ہے۔ شاباش۔

    ReplyDelete
  2. حضور نوازش آپکی۔۔۔ ویسے مزاق کرنے کا حق ہمیں نہیں کیا؟ اور جناب اپنا اِسمِ گرامی بھی لازمی بتا دیا کریں۔

    ReplyDelete
  3. zabardast.... ap lagay raho buhat zabardast likha keep it up!

    ReplyDelete
  4. آپ سب کے کمنٹ کرنے کا شکریہ! معافی چاہتا ہوں غلطی سے پُرانے کمنٹس مِٹ گئے۔

    ReplyDelete
  5. Ruqaiya said.........
    yaar adil fit hai especially woh part jahan tm ne teachers ki romance ki baat ki thi...lolz...bht maza aya tha...!!!!!

    ReplyDelete
  6. شکریہ جناب۔@ATIKA

    آپ جیسے طالباءکو مزہ نہیں آیا ہوگا تو اور کس کو آیا ہوگا؟ ہاہاہا@RUQAIYA

    ReplyDelete
  7. nice acha lihkha hai face py achi kasi simile ajati hai keep it up
    aur ka intazer rahy ga

    ReplyDelete
  8. یہ بات غلط ہے کہ سنجیدہ تحریر پڑھنے والا ہی کوئی نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ اچھی سنجیدہ تحریر لکھنا کوئی آسان بات نہیں۔ اور لکھنے والے بھی بہت کم ہیں۔
    آپ نے اب تک دو ہی تحریریں لکھی ہیں۔ نماز والی پوسٹ آپ کی اپنی نہیں‌بلکہ آپ نے کاپی پیسٹ کیا ہے۔ اور آپ صرف دو تحریروں میں ہی‌ بے حال ہو گئے۔ آگے کیا بننے گا؟؟
    شکایت کرنا چھوڑیے اور یکسوئی سے لکھنے پر توجہ دیں۔

    ReplyDelete
  9. عثمان بھائی اُمید ہے کہ آپکو میرا جواب مل گیا ہوگا اور آپ اُس سے مطمئن بھی ہو گئے ہوں گے۔ آپ تحریر دوبارہ پڑھیں۔ نہ میں بے حال ہوا‘ نہ کسی سے شکایت کر رہا ہوں اور نہ ہی سنجیدہ لکھنا چھوڑا۔ یہ تو صرف دوستوں کو آگاہ کیا ہے کہ مزاح پر بھی لکھنے کی کوشش کروں گا۔

    ReplyDelete
  10. اچھی بات ہے۔ آپ لکھنا جاری رکھیے۔ اور بلاجھجک بیان کرتے رہیں۔

    ReplyDelete
  11. شکریہ عثمان بھیا! بس آپ لوگوں کی رہنمائی درکار ہے۔
    ویسے بلا جھجک بیان کرنا کیا ہے؟;)

    ReplyDelete
  12. آج کل کی عورتوں کے کپڑے تو چڑیا گھر میں پنجرے میں لگی گِرل کی طرح ہو گئے ہیں۔۔۔۔


    قیمتی سامان محفوظ بھی ہو جائے اور دیکھنے والے خوش بھی ہو جائیں۔

    ReplyDelete

Powered by Blogger.
۔
Related Posts Plugin for WordPress, Blogger...